کراچی کے ایک سرکاری اسپتال میں غریب اور نادار افراد کے مفت علاج کے لیے متنازع فارم سے متعلق سوشل میڈیا پر احتجاج کے بعد حکام نے فارم تبدیل کر دیا ہے۔
کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر اہتمام دل کے امراض کا ایک بڑا اسپتال ہے جو سرکاری خرچ پر چلایا جاتا ہے۔ تاہم یہاں غریب اور نادار افراد کے مفت علاج کے لئے مریضوں کو ایک سرٹیفیکیٹ فارم پر دستخط کرنے پڑتے ہیں جس میں یہ واضح طور پردرج تھا کہ ان کا مسلمان ہونا ضروری ہے لیکن وہ سید ہاشمی اور اہل تشیع نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا قادیانی فرقے سے کوئی تعلق ہے۔
اس فارم میں درج دوسری شرط کے مطابق مریض یہ بتانے کا بھی پابند ہوتا ہے کہ اس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے برابر نقد روپیہ یا پھر سونا یا اتنی ہی قیمت کا تجارتی سامان وغیرہ بھی موجود نہیں ہے۔ ان دو شرائط پر پورا اترنے والوں کو ہی اسپتال میں مفت علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
اگرچہ اسپتال میں یہ فارم گزشتہ 5 سال سے استعمال ہو رہا تھا لیکن سوشل میڈیا پر اس سے متعلق مہم نے حکام کو استحقاق فارم تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
حال ہی میں جاری کردہ نئے فارم میں فرقوں کی وضاحت کو ختم کرتے ہوئے صرف دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
نئے فارم میں مستحق مریض کے لیے صرف یہ ظاہر کرنا کافی ہو گا کہ وہ اپنی بیماری کے اخراجات اپنی محدود آمدنی کے باعث پورے نہیں کر سکتا اور وہ ادارے سے مفت علاج کرانے کا مستحق ہے۔
کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کے اعلیٰ حکام نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ استحقاق فارم ان مریضوں کے لیے جاری کیا جاتا ہے جن کا علاج زکوٰۃ کے فنڈز سے ہوتا ہے۔
حکام کے مطابق چونکہ زکوٰۃ اسلام میں اہم رکن ہے اور اس کے مصارف شریعت کی جانب سے متعین ہیں۔ لہٰذا استحقاق فارم میں اس بات کی وضاحت دینا ضروری تھا کہ زکوٰۃ کی رقم سے علاج کرانے والا شخص مسلمان ہے۔ دوسرا یہ کہ پیغمبر اسلام کے خاندان سے تعلق رکھنے والوں پر زکوٰۃ کی رقم خرچ نہیں کی جا سکتی اور اہل تشیع فرقے کے افراد بھی اپنا رشتہ عام طور پر پیغمبر اسلام کے خاندان بنو ہاشم ہی جوڑتے ہیں۔ اس لئے ادار ے کی مفت علاج کی سہولت ایسے افراد کے لیے میسر نہیں۔
حکام کے مطابق چونکہ پاکستانی آئین کے تحت قادیانی یا احمدی فرقہ سے تعلق رکھنے والے خود کو مسلمان قرار نہیں دے سکتے اسی لئے اسپتال، اس فرقے سے تعلق رکھنے والے مریضوں کو زکوٰۃ کی رقم سے مفت علاج کی سہولت فراہم نہیں کرتا۔
کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اسپتال میں گزشتہ سال 1805 مریضوں کی انجیوگرافی کی گئی، 153 مریضوں کی اینجوپلاسٹی کی گئی، جب کہ 58 مریضوں کے بائی پاس آپریشن بھی کیے گئے۔ اس دوران 54 ہزار سے زیادہ مریضوں کو او پی ڈی کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔
اعلیٰ عہدے دار نے دعویٰ کیا ہے کہ ادارہ رنگ، ذات، مذہب فرقے یا کسی اور امتیاز کے بغیر مریضوں کو علاج کی سہولت میسر کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
دوسری جانب معروف مذہبی اسکالر خورشید ندیم اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ زکوٰۃ کا مصرف صرف نادار اور غریب مسلمان ہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے خورشید ندیم کا کہنا تھا کہ زکوٰۃ کے مصارف کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی صحیح تشریح نہیں کی گئی۔ اور یہ ایک روایتی تشریح ہے کہ زکوٰۃ کی رقم صرف مسلمانوں ہی کے لیے مختص ہے۔ قرآن کریم میں زکوٰۃ کے جن مصارف کا ذکر کیا گیا ہے ان میں کہیں بھی یہ موجود نہیں کہ یہ صرف مسلمانوں کے لیے ہو گی بلکہ ان کے مطابق ریاست کے ہر قسم کے فلاحی منصوبے بلا کسی رنگ، نسل، ذات، فرقے اور مذہب کے، سب کے لیے برابر ہونے چاہیے۔
ماہر قانون اور سندھ ہائی کورٹ کے معروف وکیل حسان صابر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں جس میں جنس، مذہب، فرقے، ذات پات اور اس طرح کی دیگر کوئی حدود و قیود نہیں ہیں، جب کہ پاکستان کا آئین ریاست کو تمام لوگوں کو صحت کی سہولیات بلا امتیاز مہیا کرنے کے لیے کہتا ہے۔
ماہرین کے مطابق سوشل میڈیا پر اس طرح کی آوازں کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اب لوگ اپنے حقوق کے لئے اور ان پر لگائی گئی قدغنوں کے خلاف آواز بلند کر کے حکام کو اپنے جائز مطالبات منوانے کے لئے مجبور بھی کر سکتے ہیں۔