امریکی ریاست ٹیکساس کی یہودی عبادت گاہ میں لوگوں کو یرغمال بنا کر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرنے والا شخص ہلاک ہو گیا ہے۔
حکام کے مطابق ہفتے کی شب ٹیکساس کے شہر کولیویل میں ایک شخص نے یہودیوں کی عبادت گاہ میں چار افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
واقعے کے بعد پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ایک یرغمالی کو دورانِ کارروائی رہا کرا لیا گیا جب کہ دیگر تین یرغمالیوں کو اس وقت رہائی ملی جب سیکیورٹی اہل کار عمارت کے اندر داخل ہو گئے۔
البتہ حکام نے تاحال حملہ آور کی شناخت ظاہر نہیں کی اور نہ ہی یہ تفصیلات دی ہیں کہ وہ کیسے ہلاک ہوا۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اس سے قبل قانون نافذ کرنے والے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ وہ شخص پاکستان سے تعلق رکھنے والی نیورو سائنس دان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کر رہا تھا۔
حکام کے مطابق وہ عافیہ صدیقی سے بات کرنا چاہتا تھا جو کہ ٹیکساس ہی کی فیڈرل جیل میں قید ہیں۔
پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کو امریکی عدالت نے افغانستان میں امریکی فوجیوں اور اہل کاروں پر قاتلانہ حملے سمیت سات الزامات کے تحت 86 برس قید کی سزا سنائی تھی۔
ایف بی آئی کے اسپیشل ایجنٹ انچارج میٹ ڈی سارنو کا کہنا ہے کہ اس بارے میں شواہد نہیں ملے کہ حملہ آور کسی بڑے منصوبہ کا حصہ تھا، تاہم اس بابت تحقیقات جاری ہیں۔
ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ کا ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ دعاؤں کا صلہ مل گیا۔ اس واقعے کے 12 گھنٹوں بعد تمام یرغمالی زندہ ہیں اور محفوظ ہیں۔
اس سے قبل عبادت گاہ سے فائرنگ کی آوازیں اور حملہ آور کی جانب سے عافیہ صدیقی کو رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھی سنا گیا۔
قانون نافذ کرنے والے تین اداروں کے عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا کہ عبادت گاہ میں چار افراد موجود تھے۔
پاکستانی نژاد عافیہ صدیقی پر الزم تھا کہ انہوں نے افغانستان کے صوبہ غزنی کی ایک جیل میں قید کے دوران ایف بی آئی کے اہل کاروں کی ایک ٹیم پر اس وقت قاتلانہ حملہ کرنے کی کوشش کی تھی جب وہ ان سے 'القاعدہ' کے ساتھ ان کے مبینہ روابط کی تفتیش کر رہے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اگرچہ اس حملے میں کوئی اہلکار زخمی نہیں ہوا تھا۔ البتہ امریکی فوجی کی جوابی فائرنگ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی پیٹ میں گولی لگنے سے زخمی ہو گئی تھیں۔
ایک امریکی عدالت نے 2012 میں عافیہ صدیقی کے مقدمے کی کارروائی کے مبینہ طور پر غیر شفاف ہونے سے متعلق عافیہ کے وکلا کے دعوؤں اور سزا کے خلاف دائر ان کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے انہیں سنائی جانے والے قید کی سزا برقرار رکھی تھی۔
امریکہ کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نیورو سائنس دان عافیہ صدیقی اپنے تین کمسن بچوں کے ہمراہ 2003 میں پاکستان سے پراسرار طور پر لاپتا ہو گئی تھیں جس کے بعد ان کی موجودگی کا انکشاف افغانستان میں بگرام کے امریکی فوجی اڈے میں ہوا تھا۔
سال 2010 میں ایک امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی فوجی پر حملے کے جرم سمیت سات مختلف الزامات میں 86 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں بندوق چلانے کا کوئی علم نہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی ایسا جرم کیا تھا۔