پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے ڈاکٹر عافیہ اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے پر آمادہ ہو گئی ہیں۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کی پاکستان واپسی کا معاملہ امریکی حکام کے ساتھ اٹھایا جا رہا ہے اور ہوسٹن میں پاکستانی قونصل جنرل مسلسل ڈاکٹر عافیہ سے رابطے میں ہیں۔
اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سینیٹ میں تحریری جواب میں بتایا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس سے متعلق مکمل باخبر ہیں۔ ان کی پاکستان واپسی کا معاملہ مسلسل امریکی حکام سے اٹھایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے پر آمادہ ہو گئی ہیں۔ امریکی عدالتی نظام کے مطابق صرف عافیہ صدیقی ہی اپیل دائر کرنے کا حق رکھتی ہیں اور عدالت صرف ان کی طرف سے ہی دائر کردہ اپیل کا فیصلہ کر سکتی ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سینیٹ کو بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کے لیے امریکہ سے بیرون ملک فوجداری سزاؤں کے کنونشن 1993 کے تحت درخواست کی ہے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کی کوشش کی جا رہی ہے۔
غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق حالیہ افغان امن بات چیت کے دوران طالبان نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں قیدیوں کی رہائی کی جو فہرست دی ہے، اس میں عافیہ صدیقی کا نام بھی شامل ہے۔
نومبر 2018 میں شاہ محمود قریشی سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ملاقات کی تھی، جس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی پاکستان حوالگی سے متعلق بھی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
اس سے قبل ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ قید سے باہر نکلنا چاہتی ہوں۔ قید کی سزا غیر قانونی ہے۔ مجھے اغوا کر کے امریکہ لایا گیا تھا۔
امریکی نائب وزیر خاجہ ایلس ویلز کے پاکستان کے حالیہ دورے کے موقع پر ان کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ اٹھایا گیا تھا اور پاکستان نے عافیہ صدیقی کے معاملے میں انسانی حقوق کو مدنظر رکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔
عافیہ صدیقی کو 2008 میں افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد مقدمہ چلایا گیا۔ 23 ستمبر 2010 کو کل سات الزامات میں عافیہ کو 86 سال جیل میں قید اور پانچ برس زیر نگرانی رہائی کی سزا سنائی۔
عافیہ کی لیگل ٹیم نے فیصلے کے خلاف اپیل کی اور نومبر 2012 کو سمری ججمنٹ کے بعد اس کا تفصیلی فیصلہ سیکنڈ سرکٹ کورٹ نے جاری کیا اور عافیہ کی اپیل خارج کر دی۔
مئی 2014 میں نئے وکیل نے عافیہ کی اپیل دائر کی۔ مگر جولائی 2014 میں عافیہ نے جج کو خط لکھا کہ مجھے امریکی قانونی نظام پر کوئی اعتماد نہیں اور میں کسی قسم کے ٹرائل میں حصہ نہیں لوں گی۔ لہذا، 9 اکتوبر 2014 کو جج نے عافیہ کے خط کو قبول کرتے ہوئے اپیل بند کر دی تھی۔