امریکی ایوانِ نمائندگان نےاسرائیل کے لیےلگ بھگ ساڑھے 14 ارب ڈالر کے فوجی امدادی پیکیج کی منظوری دے دی ہے۔
جمعرات اسپیکر مائیک جانسن نے ایوانِ نمائندگان کے اجلاس کے دوران معمول کے اصولوں سے ہٹ کر ری پبلکن پارٹی کی جانب سے پیش کردہ بل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہنگامی امداد کے طور پر منظور کی جانے والی رقم کو کہیں اور سرکاری اخراجات میں کٹوتیاں کرکے پورا کیا جائے۔
لیکن صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ اس بل کو ویٹو کر دیں گے جسے ایوان میں ایک سو چھیانوے ووٹوں کے مقابلے میں دو سو چھبیس ووٹوں سے منظور کیا گیا ہے۔
ایوان کے ری پبلکن اسپیکر جانسن نے کہا کہ امدادی پیکیج اسرائیل کو اپنے دفاع، جنگجو فلسطینی گروپ کے خاتمے اور ان لوگوں کو آزاد کرانے کے لیے مددگار ثابت ہو گا جنہیں حماس نے یرغمال بنا رکھا ہے۔
ان کے بقول، اس طرح ہم ایک جانب تو یہ سب کامیابیاں حاصل کریں گے اور دوسری جانب ہم ذمہ دارانہ اخراجات کو یقینی بنانے اور وفاقی حکومت کا حجم چھوٹا کرنےکے لیے کام کریں گے۔
SEE ALSO: غزہ : عارضی جنگ بندی کی سفارتی کوششیں تیز، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ میں وقفےکی اپیلدوسری جانب ڈیموکریٹس نے ایوانِ نمائندگان سے منظور ہونے والے بل پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح اسرائیل کی مدد میں تاخیر ہو گی۔
سینیٹ میں اکثریتی ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر چک شومر نے خبردار کیا ہے کہ حیرت انگیز حد تک غیر سنجیدہ اس بل کے سینیٹ میں منظور ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
ان کے بقول، اسرائیل کی مدد کرنے کے لیے کانگریس میں پہلی قانون سازی کے ذریعے تجویز کردہ امدادی رقم اس سے بہت کم ہے جو صدر جو بائیڈن نے طلب کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے لیے تقریباً 106ارب ڈالر طلب کیے تھے جس میں اسرائیل کے علاوہ یوکرین کے لیے امداد کے ساتھ چین کی کوششوں کے سد باب اور میکسیکو کی سرحد کے ساتھ سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے بھی رقوم شامل تھیں۔
SEE ALSO: اسرائیلی فوج کو غزہ میں حماس کی سخت مزاحمت کا سامناتاہم ایوان کے بل میں اسرائیل کی مدد کے لیے اتنی ہی رقم رکھی گئی ہے جتنی صدر بائیڈن چاہتے تھے۔ لیکن وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ایوان کے بل میں، غزہ کے لیے انسانی مدد کے لیے رقم شامل کرنے میں ناکامی ایسے میں ایک سنگین غلطی ہے جب کہ بحران شدید ہوتا جا رہا ہے۔
صدر بائیڈن نے ایک روز قبل ہی اسرائیل حماس جنگ میں وقفے کے لیے کہا تھا تاکہ غزہ میں امدادی کوششوں کو جاری رکھا جا سکے۔
اس رپورٹ کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔