بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج امریکی شہر ہیوسٹن میں ایک جلسے سے خطاب کریں گے۔ اس جلسے کے خلاف کشمیری اور پاکستانی کمیونٹی نے بھی بڑے احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔
مبصرین اس پیش رفت کو بھارتی حکومت کی بڑی سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی امریکی صدر کسی بھارتی وزیر اعظم کے ہمراہ جلسے سے خطاب کر رہے ہیں۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب صدر ٹرمپ کے وزیر اعظم مودی سے ذاتی تعلقات اچھے ہونے کے باوجود، بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارتی تعلقات مشکلات کا شکار ہیں ۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ ایک سے زائد مرتبہ کشمیر کے معاملے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں۔
بھارت کے وزیراعظم اور امریکہ کے صدر کے خطاب سے پہلے دیگر ریاستوں اور شہروں سے لوگ ہیوسٹن میں جمع ہو رہے ہیں تاکہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مودی حکومت کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال اور بھارتی آئین میں کی گئی تبدیلیوں پر احتجاج کریں۔
یہ احتجاج بھی اتوار کو اسی وقت کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے جب وزیر اعظم مودی اور صدر ٹرمپ این آر جی اسٹیڈیم میں موجود ہوں گے۔
اس سلسلے میں ’فرینڈز آف کشمیر‘ نامی غیر سرکاری تنظیم کی چیئر پرسن غزالہ حبیب نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ریاست ٹیکساس کے کئی شہروں سے لوگوں کو بسوں کے ذریعے ہیوسٹن لایا جا رہا ہے۔
ان کے بقول اس سلسلے میں کم سے کم 30 بسوں کا انتظام کیا گیا ہے جن میں 12 سے 15 ہزار افراد کو ہیوسٹن پہنچانے کا پروگرام ہے.
غزالہ حبیب کے مطابق ان میں بڑی تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے۔
سیکورٹی کے پیش نظر لوگوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ 12 سال سے کم عمر کے بچوں کو اپنے ساتھ نہ لائیں۔
غزالہ حبیب کا کہنا تھا کہ ہمیں ہیوسٹن کی سٹی کونسل اور پولیس کا بھر پور تعاون حاصل ہے۔ ہمارے لیے مخصوص نقشہ بنا کر بتایا گیا ہے کہ ہمیں احتجاج کے لیے اسٹیڈیم کے آس پاس کونسی جگہ دی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا احتجاج بالکل پر امن ہے ہیوسٹن کی شہری انتظامیہ کو بھی اس کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
غزالہ حبیب کے مطابق جمع ہونے والے افراد میں محض پاکستانی نژاد امریکی شامل نہیں بلکہ بھارتی نژاد امریکی مسلمان اور سکھ برادری کے کئی افراد بھی شامل ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں تمام سماجی و سیاسی تنظیموں سے رابطے کیے گئے۔ بار بار ان سے ملاقات کی گئی۔ سب سے زیادہ تعاون امریکہ میں قائم مساجد نے کیا۔ ان مساجد کے امام صاحبان نے لوگوں اور کمیونٹی کو متحرک کیا ہے۔
ہیوسٹن میں احتجاج کے انتظامات کرنے والے ہارون مغل کا کہنا تھا کہ اس تقریب کے لیے 400 سے زیادہ رضا کاروں کا بندوبست کیا گیا ہے۔ جو احتجاج کے نظم و ضبط کو یقینی بنائیں گے۔
غزالہ حبیب کا مزید کہنا تھا کہ ہیوسٹن میں 13 مقامات پر قائم مساجد کے باہر بسوں کے اسٹاپ بنائے گئے ہیں۔ ان بسوں میں سوار ہو کر لوگ احتجاج کے لیے این آر جی اسٹیڈیم پہنچیں گے۔
صبح ساڑھے سات اور آٹھ بجے یہ بسیں ان مقامات سے نکلیں گی جبکہ این آر جی اسٹیڈیم پہنچیں گی۔
پاکستانی کمیونٹی کو پیغام دیا گیا ہے کہ وہ یہاں بڑی تعداد میں پہنچیں۔
مسجد کی انتظامیہ کے مطابق ان بسوں کا کرایہ دو ڈالر فی مسافر ہے اور ساتھ ہی دوپہر کا کھانا بھی دیا جائے گا۔
’ہاوڈی مودی‘ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے مختلف سماجی اور غیر سرکاری تنظیمیں سرگرم ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم کی ہیوسٹن آمد
واضح رہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی ہفتے کے روز ہیوسٹن پہنچے تھے، جہاں ان کی ریاست اور شہر کے مختلف آئل ایگزیکٹیوز سے ملاقاتیں طے تھیں۔
بھارت کے دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد، نریندر مودی پہلی بار امریکہ پہنچے ہیں۔
ہیوسٹن میں انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے بھارتی کمیونٹی نے بڑے پیمانے پر ایک تقریب کا اہتمام کیا۔
’ٹیکسس انڈیا فورم‘ کے مطابق ہیوسٹن میں قائم این آر جی اسٹیڈیم میں لگ بھگ 50 ہزار بھارتی نژاد امریکیوں نے اس استقبال میں امریکہ بھر سے شرکت کرنے کے لیے پہلے ہی رجسٹریشن کروا لی ہے۔
اس ایونٹ میں جہاں وزیر اعظم مودی بھارتی امریکیوں سے خطاب کریں گے، وہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی تقریب میں شرکت کرنے اور بھارتی نژاد امریکیوں سے خطاب کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بین الاقوامی رہنما کو سننے کے لیے اتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوں گے۔
کسی امریکی صدر کے لیے بھی یہ پہلا موقع ہے کہ وہ امریکہ میں بسنے والے بھارتی نژاد امریکیوں سے خطاب کریں گے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف مقدمہ درج
دوسری طرف ہیوسٹن کی ایک عدالت میں وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جس میں ان پر کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اس مقدمے میں مودی سمیت بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ اور لیٖفٹننٹ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلوں کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
اس مقدمے کو تیار کرنے والے پاکستانی نژاد امریکی سلمان یونس نے بتایا ہے کہ مقدمے کا مقصد اس بات کو ریکارڈ پر لانا ہے کہ وزیر اعظم مودی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں جبکہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ امریکہ میں نریندر مودی پر ایسا کوئی مقدمہ درج کیا گیا ہو۔
سلمان یونس کے مطابق اس سے پہلے بھی بھارت کے شہر گجرات میں ہونے والے فسادات پر اس طرح کا مقدمہ نیو یارک کی ایک عدالت میں نریندر مودی پر درج ہے۔
سلمان کہتے ہیں کہ اگرچہ وزیر اعظم ہونے کے ناطے نریندر مودی کو استثنیٰ حاصل ہے۔ تاہم جب وہ وزیر اعظم نہیں رہیں گے اس وقت ان کے لیے یہ مقدمہ بھاری ہوگا۔
جہاں تک وزیر اعظم مودی کی تقریب کا تعلق ہے اس کے منتظمین کے مطابق تمام تیاریاں مکمل ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ 50 ہزار کے قریب افراد اب تک رجسٹریشن کروا چکے ہیں۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ پولیس اور سٹی کونسل اس سلسلے میں بھر پور تعاون کر رہی ہے اور اس بات کا خدشہ کم ہی ہے کہ کوئی بد انتظامی ہو سکتی ہے۔