پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو اپنا دس روزہ طویل دورۂ امریکہ مکمل کر کے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔اپنے اس دورے کے دوران انہوں نے اقوام متحدہ میں مصروفیات کے ساتھ واشنگٹن میں امریکی حکام اور اراکین کانگریس اور اپنے ہم منصب انٹنی بلنکن سے ملاقاتیں کیں۔
بلاول بھٹو کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب دونوں ملک اپنے تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری کو ختم کرکے دوطرفہ امور میں تعاون بڑھانے کے خواہاں ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو کا دورہ امریکہ دوطرفہ تعلقات میں بہتری لانے کی کوششوں کا سلسلہ ہے جس کی خواہش دونوں جانب پائی جاتی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگرچہ بلاول بھٹو کا یہ دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل نہیں ہے تاہم اس کے نتیجے میں دو طرفہ تعلقات کو بڑھاوا ملے گا۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ میں سیکیورٹی امور کے ماہر کامران بخاری کہتے ہیں کہ ایک پراعتماد نوجوان وزیر خارجہ کے ساتھ بات کرنے میں امریکی حکام بھی پرجوش دکھائی دیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ایک طرح سے یہ امریکہ کے لیے بھی نئی شروعات ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو سیکیورٹی کے دائرے سے بڑھ کر دیکھا جائے۔
کامران بخاری کہتے ہیں کہ پاکستان کے داخلی سیاسی حالات اور موجودہ حکومت کی مدت معیاد کم رہ جانے کے سبب واشنگٹن سے کوئی بڑا اعلان نہیں ہوسکا ہے تاہم اس کے باوجود یہ دورہ تعلقات میں بہتری کو ظاہر کرتا ہے۔
واشنگٹن میں مقیم پاکستانی صحافی انور اقبال کہتے ہیں کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث امریکہ موجودہ حکومت کے بہت زیادہ قریب آنے کی کوشش نہیں کرے گا۔
SEE ALSO: امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن اور پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی ملاقاتوائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ سیاسی انتشار کا یہی نقصان ہوتا ہے کہ دوسرے ملک تعلقات کے حوالے سے زیادہ گرم جوشی نہیں دکھاتے تاکہ یہ تاثر نہ جائے کہ ان کا وزن کسی ایک پلڑے میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرسمس کے موقع پر اور نئے سال کے بجٹ کی منظوری کے دنوں میں بلاول بھٹو کا یہ دورہ بنیادی طور پر پاکستان کی معاشی مشکلات میں آسانی لانے کی ایک کوشش دکھائی دیتا ہے۔
انور اقبال کہتے ہیں کہ بلاول نے اپنے دورہ واشنگٹن کے دوران امریکی حکام سے اہم ملاقاتیں کی ہیں تاہم جو نتیجہ خیز بات سامنے آئی وہ عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کو پونے دو (1.69 ) ارب ڈالر کی فراہمی ہے جنہیں سیلاب زدگان کی امداد و بحالی کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ورلڈ بینک کی جانب سے اعلان کردہ رقم رواں ہفتے ہی پاکستان کو مل جائے گی جس کے نتیجے میں معاشی عدم استحکام کی صورت سے دوچار ملکی مارکیٹ میں مثبت تاثر پیدا ہوگا۔
کامران بخاری سمجھتے ہیں کہ یوکرین۔ روس تنازعے کے باعث امریکہ کے وسائل اور توجہ وہاں صرف ہورہی ہے اور تائیوان، فلپائن اور بھارت کے ساتھ کشیدگی کے باعث اس خطے میں چین ترجیح بن گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے امریکہ سے کسی جامع مالیاتی پیکج کی امید نہیں کی جاسکتی لیکن عالمی مالیاتی اداروں سے بات چیت میں واشنگٹن کی معاونت ضرور مل جائے گی۔
پاک امریکہ تعلقات گھوم پھر کر افغانستان پر ہی آجاتے ہیں!
بلاول بھٹو کے دورے کے دوران ہی امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان نے پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے تعاون کی پیش کش کی۔
پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ امریکہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان کی مدد کرنے پر تیار ہے۔
کامران بخاری کہتے ہیں کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ امریکہ سے دیرینہ مراسم کی بنیاد پر دوطرفہ تعلقات کو بڑھایا جائے لیکن خطے کے حالات دونوں ملکوں کو سیکیورٹی کے امور سے آگے نہیں بڑھنے دیتے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان واشنگٹن کی ترجیح نہیں رہا۔ تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ مستقل رابطوں کے ذریعے اپنا مقام بنا رہا ہے اور واشنگٹن کو قائل کررہا ہے کہ اسے صرف افغانستان کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ معاملات گھوم پھر کر پھر افغانستان تک ہی پہنچ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کی پاکستان میں ابھرتی ہوئی سرگرمیاں قابل تشویش ہیں اور پاکستان کی جانب سے اس حوالے سے کوئی سخت اقدام افغان طالبان کو ناراض بھی کرسکتا ہے۔
کامران بخاری نے بتایا کہ پاکستانی وزیر خارجہ کے اس دورے میں دوطرفہ تعلقات کے علاوہ امریکہ چین، پاکستان بھارت اور افغانستان پر بھی بات چیت ہوئی۔
SEE ALSO: پاکستان ٹی ٹی پی کے خلاف ٹھوس کارروائی جاری رکھے گا، بلاولتاریخی طور پر پاکستان امریکی کیمپ کا حصہ رہا ہے تاہم چین کے ساتھ تعلقات مضبوط ہونے کے بعد اسلام آباد یوکرین۔ روس جنگ میں غیر جانبدار رہا ہے۔
واشنگٹن کو احساس ہے پاکستان کو بھارت کی وجہ سے نظر انداز نہ کیا جائے!
انور اقبال نے کہا کہ پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے تصدیق کی کہ دہشت گردی کے حوالے سے تعاون کے بارے میں امریکی حکام سے بات ہوئی ہے۔
تاہم پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے گزشتہ ہفتے وائس آف امریکہ کو دیئے گئے انٹرویو میں امریکہ کی جانب سے دہشت گردی سے نمٹنے میں تعاون کی پیش کش پر کہا تھا کہ امریکہ نے افغانستان میں شدت پسندی ختم کر دی تھی کہ وہ ہماری مدد کرے گا؟
انور اقبال کہتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے یوکرین۔ روس جنگ میں غیر جانبدار رہنے اور چین کے حوالے سے توقعات پر زیادہ پورا نہ اترنے کو دیکھتے ہوئے امریکی فیصلہ سازوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں بھارت کی وجہ سے سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہئے۔
انور اقبال کے بقول امریکہ میں یہ احساس موجودہے کہ چین، ایران، افغانستان اور وسط ایشیا سے جڑے ہوئے پرانے اتحادی ملک کو نظر انداز کیا گیا تو پاکستان مکمل طور پر چین اور روس کے کیمپ میں جاسکتا ہے۔
مودی پر بلاول کی تنقید سے پاک بھارت تعلقات متاثر نہیں ہوں گے!
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے دورہ امریکہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ دورہ بہت اہم رہا جس میں انہوں نے جی 77 ممالک اور چین سے پائیدار ترقی کے اہداف اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی حکمت عملی منظور کروائی۔
انہوں نے نیویارک سے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وزیر خارجہ نے سلامتی کونسل میں اصلاحات کے حوالے سے اجلاس میں پاکستان کا موقف سامنے رکھا کہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی تعداد میں اضافے کی بجائے منتخب ممبران کا اضافہ کیا جانا چاہئے۔
SEE ALSO: سلامتی کونسل اجلاس، پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ایک دوسرے پر شدید تنقیدان کے بقول پاکستان کے اس موقف کو کافی حمایت ملی کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں اصلاحات کا جمہوری طریقہ اپنایا جانا چاہئے اور مستقل اراکین کا اضافہ مسائل کا سبب بنے گا۔
منیر اکرم نے کہا کہ دہشت گردی کے حوالے سے بھارت کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں پاکستانی وزیر خارجہ کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی لہذا بلاول بھٹو نے جے شنکر کے الزامات کا پریس کانفرنس میں منہ توڑ جواب دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ انہیں اندازہ تھا کہ بھارت سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان پر الزام تراشی کرے گا اور اسی کو دیکھتے ہوئے بلاول بھٹو نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں اور نقصانات کو اجاگر کیا۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم کو گجرات کا قصاب قرار دینے پر پاکستانی سفارت کار کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کی یہ عکاسی خود بھارت کے لوگ اور عالمی میڈیا کرتا رہا ہے بلاول بھٹو نے تو صرف یاد دلایا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو نے یہ آئینہ اس لیے بھی دکھایا ہے کہ بھارت ہر موقع پر پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگاتا ہے۔
منیر اکرم نے کہا کہ بھارت کو اندازہ ہونا چاہئے کہ وہ جو متکبرانہ رویہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ رکھے ہوئے ہے وہ سلوک پاکستان قبول نہیں کرسکتا۔
منیر اکرم نے کہا کہ بلاول بھٹو کی نریندر مودی پر براہ راست تنقید سے دونوں ملکوں کے تعلقات زیادہ متاثر نہیں ہوں گے کیوں کہ ہمسایہ ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات پہلے سے کشیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلقات میں بہتری کے لیے دونوں طرف سے اقدامات لینا ہوں گے۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے اجلاس کے موقع پر پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ نے دہشت گردی کے معاملے پر ایک دوسرے پر سخت تنقید کی تھی۔ بلاول بھٹو نے بھارت کے وزیراعظم کو ’گجرات کے قصاب‘ کا نام دیا ہے جب کہ جے شنکر نے پاکستان کو خطے اور خطے سے باہر دہشت گردی کا ایکسپورٹر قرار دیا ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو کا اقوام متحدہ میں بھارت کے حوالے سے سخت موقف حکمت عملی کے تحت تھا جس کے ذریعے بھارت کو جواب دینے کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام میں پذیرائی حاصل کرنا بھی مقصود تھا۔
بلاول کی مودی پر تنقید جانچا ہوا اقدام تھا!
کامران بخاری کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو کو داخلی سیاسی ضروریات کے تناظر میں یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ عالمی فورمز پر سابق وزیر اعظم عمران خان سے بھی زیادہ سخت انداز میں بھارت کا مقابلہ کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو ایک جماعت کے سربراہ بھی ہیں اور انہیں آئندہ سال عام انتخابات کی طرف جانا ہے اس لیے ان کی بھارت پر تنقید سیاسی مقاصد کے تحت تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ اسی بنا پر بلاول بھٹو امریکہ پر بھی تنقید کرجاتے ہیں کیونکہ انہیں عمران خان کا یہ بیانیہ توڑنا ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت امریکہ و مغرب کی خوشنودی کے خلاف کوئی قدم نہیں لے سکتی۔
کامران بخاری کہتے ہیں کہ بلاول کی نریندر مودی پر تنقید اس وجہ سے بھی ہے کہ پاکستان کے نئے فوجی سربراہ بھارت کے حوالے سے سخت رویہ رکھتے ہیں اور پیپلز پارٹی خود کو اسٹیبلیشمنٹ کے لیے زیادہ قابل قبول بنانا چاہتی ہے۔
انور اقبال نے کہا کہ بھارت کے حوالے سے پاکستانی وزیر خارجہ کا ردعمل ایک جانچا ہوا اقدام تھا اور اس کے نتیجے میں واشنگٹن کو کہنا پڑا کہ امریکہ پاکستان اور بھارت دونوں جانب سے سخت زبان کا استعمال نہیں چاہتا ہے۔
انور اقبال کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ کے مسلسل پاکستان مخالف بیانات پر انہیں غصہ آگیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے سخت بیانات کے تبادلے پر اقوام متحدہ، امریکہ یا دیگر ممالک نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ ان کے بقول ان بیانات سے بین الاقوامی طور پر کوئی فرق نہیں پڑا لیکن پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔