وزیرِ اعظم مودی کا دورۂ روس؛ کیا یہ مغربی ملکوں کو کوئی پیغام ہے؟

  • بھارتی وزیرِ اعظم کے دورۂ روس کو ماہرین اہم قرار دے رہے ہیں۔
  • نریندر مودی روسی صدر کی دعوت پر ماسکو پہنچے ہیں۔
  • روس کا دورہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ایک موقع فراہم کرے گا: وزیرِ اعظم مودی
  • وزیرِ اعظم مودی یوکرین جنگ میں بھارتی نوجوانوں کی شمولیت کے معاملے پر بھی گفتگو کریں گے: ماہرین
  • بھارت کو روس، امریکہ اور چین کے تناظر میں اپنی پوزیشن کو برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے: سابق سفارت کار منجو سیٹھ

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی دو روزہ سرکاری دورے پر روس میں موجود ہیں۔ ماہرین عالمی منظرنامے اور علاقائی صورتِ حال کے تناظر میں بھارتی وزیرِ اعظم کے دورے کو اہم قرار دے رہے ہیں۔

نریندر مودی روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کی دعوت پر بھارت روس سالانہ سربراہ اجلاس میں شرکت کی غرض سے گئے ہوئے ہیں۔

وہ نو جولائی کی شام کو وہاں سے آسٹریا جائیں گے۔ گزشتہ 40 برس میں کسی بھارتی وزیرِ اعظم کا آسٹریا کا یہ پہلا دورہ ہو گا۔

دورے پر روانہ ہونے سے قبل انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ روس اور آسٹریا کا دورہ دونوں ملکوں سے بھارت کو تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ایک موقع فراہم کرے گا۔ ان کے بقول دونوں ملکوں کے ساتھ بھارت کے دیرینہ دوستانہ تعلقات ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ روس اور بھارت کے درمیان خصوصی اسٹریٹجک شراکت داری گزشتہ 10 برسوں میں مزید آگے بڑھی ہے۔ توانائی، سلامتی، تجارت، سرمایہ کاری، صحت، تعلیم، ثقافت، سیاحت اور عوام سے عوام کے درمیان رابطے جیسے شعبوں میں باہمی تعاون میں اضافہ ہوا ہے۔

وزیرِ اعظم مودی کے دورے کے سلسلے میں روس بھی پرجوش ہے۔ اس نے اس دورے کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مودی کے اس دورے سے مغربی ممالک حسد کر رہے ہیں۔

کریملن کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے روس کے سرکاری ٹیلی ویژن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ وزیرِ اعظم مودی کا پروگرام بہت وسیع ہو گا۔ دونوں رہنماؤں میں غیر رسمی بات چیت بھی ہو گی۔ یاد رہے کہ ان میں وفود سطح کے علاوہ تنہائی میں بھی مذاکرات ہوں گے۔

یوکرین جنگ کے بعد بھارتی وزیرِ اعظم کا پہلا دورہ

ماسکو میں بھارتی تارکینِ وطن بھی مودی کے دورے کے منتظر تھے۔ وہ وہاں ایک مندر اور ایک انڈین اسکول کی تعمیر اور بھارت کے لیے پروازوں میں اضافے کے سلسلے میں مودی کی حمایت چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ مودی بھارتی تارکینِ وطن سے بھی خطاب کریں گے۔

نریندر مودی کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد صدر پوٹن سے یہ ان کی 16 ویں ملاقات ہے۔ ان کا یہ دورہ یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار ہو رہا ہے۔ قبل ازیں انھوں نے ستمبر 2019 میں روس کا دورہ کیا تھا۔ جب کہ صدر پوٹن نے دسمبر 2021 میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ بطور وزیرِ اعظم پہلا دورہ کسی ہمسایہ ملک کا کرتے رہے ہیں۔ خود وزیرِ اعظم مودی نے 2014 میں بھوٹان کا اور 2019 میں مالدیپ اور سری لنکا کا دورہ کیا تھا۔ لیکن اس بار انھوں نے اس روایت کو توڑا ہے۔

مودی ایسے وقت میں پوٹن سے ملاقات کر رہے ہیں جب انہی تاریخوں میں 32 ملکوں کے روس مخالف فوجی اتحاد ’نیٹو‘ کا واشنگٹن میں اجلاس چل رہا ہے۔

کیا یہ مغربی ممالک کے لیے کوئی پیغام ہے؟

بعض میڈیا رپورٹس میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا اس موقع پر وزیرِ اعظم مودی کا روس کا دورہ مغرب کے لیے کوئی پیغام ہے؟ وزارتِ خارجہ میں سینئر ترین سفارت کار اور سیکریٹری خارجہ ونے کواترا نے ان دونوں معاملات میں کسی بھی تعلق کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم کا دورہ دونوں ملکوں کے مابین سربراہ اجلاس ہے۔

واضح رہے کہ بھارت سے روس کے دوستانہ رشتے سوویت روس کے زمانے سے ہیں۔ البتہ حالیہ برسوں میں مغرب اور بالخصوص امریکہ کی جانب اس کا جھکاؤ بڑھا ہے۔ اسی کے ساتھ اس نے اپنے مفادات کے پیش نظر اپنی اسٹریٹجک خود مختاری بھی قائم کی ہے۔

سابق سفارت کار منجو سیٹھ کا کہنا ہے کہ اس دورے میں کسی کے لیے کوئی پیغام نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے امریکہ اور روس دونوں سے تعلقات ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے کہ دونوں چیزیں ایک ساتھ ہو رہی ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے باہمی رشتے وقت کے گزرنے کے ساتھ آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔

'ہر ملک اپنا مفاد دیکھتا ہے'

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ روس اور چین کے مابین دوستانہ تعلقات ہیں۔ چین کے ساتھ بھارت کا سرحدی تنازع چل رہا ہے۔ امریکہ نے یوکرین جنگ کی وجہ سے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ جب کہ بھارت کے تعلقات روس اور امریکہ دونوں سے ہیں۔ ایسے میں بھارت کو اپنا غیر جانب دار مؤقف برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔

منجو سیٹھ کا کہنا ہے کہ ہر ملک اپنا مفاد دیکھتا ہے۔ بھارت ایک غیر جانب دار ملک ہے۔ اس نے نہ تو یوکرین جنگ کی حمایت کی ہے اور نہ ہی روس کی مذمت کی ہے۔

ان کے بقول جہاں تک چین کا معاملہ ہے تو دونوں میں سرحدی تنازعات چل رہے ہیں۔ چین جہاں بھی موقع ملتا ہے اپنے مفادات کے تحت پیش قدمی کرتا ہے۔ وہ بھارت پر دباؤ بنانا چاہتا ہے۔ لیکن بھارت کی کوشش کشیدگی کو کم کرنے کی ہے۔

وہ اس سے انکار کرتی ہیں کہ بھارت کو روس، امریکہ اور چین کے تناظر میں اپنی پوزیشن کور برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے امریکہ، مغربی ملکوں اور سات طاقت ور ملکوں کے گروپ جی۔7 کی جانب سے روس پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

ونے کواتارا سے جب پوچھا گیا کہ بھارت جی سیون کی پابندیوں سے کیسے نمٹے گا، تو انھوں نے کہا کہ بھارت اس معاملے پر اس بلاک کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔

کواترا کے مطابق وزیرِ اعظم مودی یوکرین جنگ میں بھارتی نوجوانوں کی شمولیت کے معاملے پر بھی گفتگو کریں گے جن کو گمراہ کر کے وہاں بھیجا گیا ہے اور ان کی واپسی پر زور ڈالیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ معاملہ ایجنڈے میں سرِفہرست رہے گا۔

سابق سفارت کار منجو سیٹھ کا کہنا ہے کہ جو بھارتی نوجوان اس جنگ میں شامل ہوئے ہیں وہ انسانی اسمگلنگ کے شکار بنے ہیں۔ یہ معاملہ روسی حکومت کے سامنے پہلے بھی اٹھایا گیا تھا، ایک بار پھر اٹھایا جائے گا۔ ان کے مطابق کچھ نوجوان واپس آ چکے ہیں، باقی لوگوں کو بھی لانے کی کوشش ہے۔

خیال رہے کہ بہت سے بھارتی نوجوانوں کو روس میں پر کشش ملازمت یا تعلیم دلانے کے نام پر گمراہ کیا گیا اور جب وہ روس پہنچے تو انھوں نے خود کو میدان جنگ میں پایا۔ مئی میں بھارت کی پولیس نے اس سلسلے میں چار افراد کو گرفتار کیا تھا۔

رواں سال فروری میں میڈیا میں ان رپورٹس کے منظرِ عام پر آنے کے بعد کہ متعدد بھارتی نوجوانوں نے یوکرین جنگ میں روس کی حمایت کرنے کا عہد کیا ہے، حکومت نے اپنے شہریوں سے اپیل کی تھی کہ وہ روس یوکرین جنگ میں ملوث نہ ہوں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 21 فروری کو گجرات کے ایک 23 سالہ شخص کی اس جنگ میں ہلاکت ہوئی تھی۔ اسے دسمبر 2023 میں روسی فوج کی جانب سے سیکیورٹی معاون کے طور پر بھرتی کیا گیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق سیکیورٹی معاون کے طور پر بھرتی کیے جانے والے متعدد نوجوانوں کو جبراً جنگ میں بھیجا گیا ہے۔ ان میں بیشتر کا تعلق کرناٹک، تیلنگانہ اور جموں و کشمیر سے ہے۔

تجارت کو آگے بڑھانے کی کوششیں

ادھر بھارت اور روس کے درمیان تجارت فروغ پا رہی ہے۔ لیکن اس میں عدم توازن ہے اور اس کا جھکاؤ روس کی جانب بہت زیادہ ہے۔2024-2023 میں باہمی تجارت میں کافی فروغ ہوا ہے۔

یوکرین جنگ سے قبل فریقین نے باہمی تجارت کو 2025 تک 30 ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا تھا۔ لیکن وزارت تجارت کے مطابق باہمی تجارت 65.70 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔

رپورٹس کے مطابق جہاں بھارت نے روس سے 61.44 ارب ڈالر کی درآمد کی ہے جس میں بالخصوص تیل، پیٹرولیم مصنوعات، کھاد، قیمتی پتھر، میٹیل اور خوردنی تیل شامل ہیں،وہیں روس کو بھارت کی برآمدات محض چار ارب ڈالر ہیں۔