روس نے 'برکس' کی رُکنیت کے لیے پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق عالمی تنہائی کا شکار روس علاقائی ممالک سے تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ روس کی جانب سے یہ حمایت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جہاں اگلے ماہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے۔ 'برکس' ممالک کا اپنا بینک بھی ہے۔ لہذٰا پاکستان عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے ہٹ کر 'برکس' ممالک سے بھی معاشی فوائد حاصل کر سکتا ہے: سابق سفارت کار عاقل ندیم نہ صرف بھارت، پاکستان کی مخالفت کرے گا بلکہ مغربی ممالک بھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان اسے فورم کا حصہ بنے جس میں چین اور روس جیسے ممالک ہوں: تجزیہ کار شجاعت فاروق |
اسلام آباد -- روس کی جانب سے دنیا کی اُبھرتی ہوئی معیشتوں کے اتحاد 'برکس' میں پاکستان کی شمولیت کی حمایت کے اعلان کو پاکستان کے لیے خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے خطے میں نہ صرف پاکستان کی اہمیت بڑھے گی بلکہ اس کی معاشی مشکلات میں بھی کمی آ سکتی ہے۔
یہ پیش رفت روس کے نائب وزیرِ اعظم الیکسی اوورچک کے دو روزہ دورۂ پاکستان کے دوران ہوئی ہے جس کے دوران اُنہوں نے وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف، نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔
دورے کے دوران روسی نائب وزیرِ اعظم نے باہمی تجارت کے فروغ سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کے سمجھوتوں پر بھی دستخط کیے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی طرف سے برکس میں شامل ہونے کی درخواست گزشتہ برس اگست میں جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں برکس کے سربراہی کانفرنس کے بعد سامنے آئی تھی۔
یہ بلاک پہلے برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل تھا، تاہم گزشتہ برس اس میں مزید چھ ممالک ایران، ایتھوپیا، سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور ارجنٹائن کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی بعض ماہرین نے حیرت کا اظہار کیا تھا کہ خطے میں چین کا حلیف ہونے کے باوجود پاکستان اس میں شامل کیوں نہیں ہو سکا۔
روس کی جانب سے یہ حمایت ایک ایسے وقت میں سامنے ائی ہے جہاں اگلے ماہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان شدید معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہے ماہرین روسی حمایت کو پاکستان کی اہم سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
'پاکستان کو معاشی فائدہ ہو سکتا ہے'
سابق سفارت کار عاقل ندیم کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ برکس میں چین، روس، ایران، بھارت اور جنوبی افریقہ جیسے بڑے ممالک شامل ہیں اس لیے دوطرفہ فروغ کے ساتھ ساتھ باہمی دلچسپی کے معاملات میں بھی پیش رفت ہو سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عاقل ندیم کا کہنا تھا کہ 'برکس' ممالک کا اپنا بینک بھی ہے۔ لہذٰا پاکستان عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے ہٹ کر 'برکس' ممالک سے بھی معاشی فوائد حاصل کر سکتا ہے۔
عاقل ندیم کے بقول روس، یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی تنہائی کا شکار ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ علاقائی سطح پر اپنے تعلقات کو وسعت دے رہا ہے۔ روسی صدر پیوٹن کئی ممالک کا سفر نہیں کر سکتے، لیکن ان میں پاکستان شامل نہیں ہے۔
اُن کے بقول 'برکس' میں پاکستان کے شامل ہونے سے روس کو کوئی نقصان نہیں ہو گا بلکہ اس سے پاکستان میں روس کے حوالے سے ایک نرم گوشہ پیدا ہو گا۔
پاکستان کے لیے دہری رکاوٹ
لیکن بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ 'برکس' میں شمولیت کے لیے پاکستان کو دہری رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
معاشی تجزیہ کار اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکانومکس کے سربراہ شجاعت فاروق کہتے ہیں کہ 'برکس' کی رُکنیت کے لیے تمام رُکن ممالک کا اتفاقِ رائے ضروری ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بھارت 'برکس' کا اہم رُکن ہے اور اس کے پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کسے سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
اُن کے بقول نہ صرف بھارت، پاکستان کی مخالفت کرے گا بلکہ مغربی ممالک بھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان اسے فورم کا حصہ بنے جس میں چین اور روس جیسے ممالک ہوں۔
شجاعت فاروق کے مطابق پاکستان کو ایران کے ساتھ تجارت میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ حالاں کہ ایران پاکستان کی تیل اور گیس کی ضروریات کسی حد تک پوری کر سکتا ہے۔ ایسے میں 'برکس' میں پاکستان کی شمولیت بہت بڑا اقدام ہو گا۔
شجاعت فاروق کہتے ہیں کہ 'برکس' جیسے فورمز عالمی سطح پر تجارت اور دیگر امور کے فروغ کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جیسا کہ یورپی یونین اور 'آسیان' کی مثالیں پوری دنیا کے سامنے ہیں۔
ان کے بقول یہاں بھی جنوبی ایشیائی ممالک 'سارک' جیسے پلیٹ فارم کو منظم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کا حال سب کے سامنے ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) سے بھی جو توقعات تھیں، وہ پوری نہیں ہو سکیں۔ کیوں کہ وہاں بھی پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تعلقات آڑے آ جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر 'برکس' ممالک کے معاشی حجم کی بات کی جائے تو یہ دنیا کی مجموعی معیشت کا 35 فی صد ہے۔ اس لیے اس فورم میں شمولیت ایک کامیابی ضرور ہو گی اور رُکن ملک کو اس کا فائدہ بھی ہو گا۔
شجاعت فاروق کہتے ہیں کہ کسی بھی عالمی فورم سے اسی صورت میں استفادہ کیا جا سکتا جب ملک میں سیاسی استحکام ہو۔
اُن کے بقول اگر پاکستان میں سیاسی عدم استحکام رہے گا تو نہ تو ملک میں سرمایہ کاری آئے گی اور نہ ہی عالمی سطح پر پاکستان کی اہمیت بڑھے گی۔