ریاست ٹیکساس کے ایک اسکول میں فائرنگ کے واقعے میں بچوں اور اساتذہ کی ہلاکت کے بعد جہاں اسلحے سے متعلق قوانین کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں وہیں ایک بار پھر ’گن لابی‘ بھی بحث کا موضوع ہے۔
منگل کی سہ پہر ٹیکساس کے شہر یووالڈے میں واقع راب ایلیمنٹری اسکول میں ایک 18 سالہ نوجوان نے اندھا دھند فائرنگ کر کے بچوں اور اساتذہ کو نشانہ بنایا تھا۔ اس واقعے میں 19 بچے اور دو اساتذہ جان کی بازی ہار گئے تھے جب کہ پولیس نے حملہ آور کو موقعے پر ہی ہلاک کردیا تھا۔
واقعے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے ٹیلی ویژن پر قوم سے مختصر خطاب میں بھی گن لابی پر تنقید کرتے ہوئے زور دیا تھا کہ ایسے سانحوں کو روکنے کا وقت آ گیا ہے۔"
امریکہ میں قدامت پسند حلقوں اور ری پبلکن پارٹی کا مؤقف ہے کہ اسلحے کے باعث ہونے والے تشدد کی وجہ اسلحہ نہیں بلکہ انسانی رویے، نفسیاتی مسائل آگاہی اور تربیت کی کمی ہے۔ وہ ویڈیو گیمز اور فلموں وغیرہ کو گن وائلنس کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
آزاد خیال طبقے اسلحے تک رسائی کو گن وائلنس کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ لبرل حلقے اور ڈیموکریٹ پارٹی اسلحہ کی فروخت کی حدود متعین کرنے کی حامی ہے۔ان کے نزدیک اسلحہ خریدنے والے کا پس منظر، عمر اور فروخت کے لیے اسلحے کی درجہ بندی کی حدود متعین کرنا ضروری ہے جسے وہ ’گن کنٹرول‘ کہتے ہیں۔
امریکہ میں جب بھی اسلحے سے متعلق قوانین میں تبدیلی یا ان تک رسائی محدود کرنے سے متعلق بحث کا آغاز ہوتا ہے تو اس میں ’گن لابی‘ کا نام لازمی آتا ہے جو گن کنٹرول سے متعلق قانون سازی پر اثرا انداز ہونے کے لیے اپنے وسائل اور روابط بروئے کار لاتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
لابنگ اور گن لابی
امریکہ میں قانون سازی پر اثر انداز ہونے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ’لابنگ‘ کہا جاتا ہے اور امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت اس کو تحفظ بھی حاصل ہے۔
آئین کی پہلی ترمیم کے مطابق کانگریس مذہبی، شخصی اور اظہار کی آزادیوں کے خلاف کوئی قانون نہیں بناسکتی۔ اسے لابنگ کی بنیاد اس لیے قرار دیا جاتا ہے کہ قانون سازی کے لیے نمائندگی اور کسی خاص شعبے پر قوانین بنانے کی صورت میں اس کے متعلقہ شعبوں کی نمائندگی، آرا اور ان کی فراہم کردہ معلومات ضروری ہوتی ہیں۔ اسی بنیاد پر مختلف صنعتیں، شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس اپنی متعلقہ قانون سازی میں اپنے مفادات یا حقوق کے تحفظ کے لیے منظم انداز میں لابنگ کرتے ہیں۔
سن 1946 میں ’فیڈرل ریگولیشن آف لابنگ ایکٹ‘ کے تحت قانون سازی کی گئی اور اس کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی حکومت سے رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا گیا۔ 1995 میں ’لابنگ ڈسکلوژر‘ ایکٹ نے اس قانون کی جگہ لی اور اس کے تحت قانون سازی پر اثر انداز ہونے کے لیے لابنگ کی سرگرمیوں کی معلومات عام کرنے کی شرط عائد کی گئی۔
امریکہ میں اسلحہ رکھنے کے قوانین کے تحفظ کے لیے فعال افراد اور گروپس کو ’گن لابی‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ فعال اور نمایاں تنظیم ’نیشنل رائفل ایسوسی ایشن‘ (این آر اے) ہے۔
امریکہ کی خانہ جنگی میں حصہ لینے والے دو سابق فوجیوں ولیم کونینٹ چرچ اور کیپٹن جارج ووڈ ونگیٹ نے 1871 میں ’سائنسی بنیادوں پر رائفل شوٹنگ کے فروغ‘ کے لیے اس گروپ کی بنیاد رکھی تھی۔
اپنے قیام کی ابتدائی دہائیوں میں گروپ نے امریکہ بھر میں رائفل کلب قائم کیے اور اسلحے سے نشانہ بازی کی کھیل کے طور پر حوصلہ افزائی کی۔این آر اے نے 1930 کی دہائی میں اسلحے سے متعلق قانون سازی پر اثر انداز ہونے کے لیے سرگرمیاں شروع کیں۔
SEE ALSO: امریکہ میں گن وائلنس: اسلحہ پر کنٹرول کے لیے قانون سازی مشکل کیوں؟یہاں اہم بات یہ ہے کہ این آر اے ہمیشہ سے گن کنٹرول کی مخالف نہیں رہی۔ این آر اے نے 1934 اور 1938 میں بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ سے صدر فرینکلن روز ویلٹ کی حکومت میں اسلحے کی فروخت پر عائد کیے گئے ضوابط کی حمایت کی تھی۔ ان قوانین کے تحت اسلحہ ڈیلرز کو لائسنس جاری کیے گئے اور بعض خاص قسم کے ہتھیاروں کے فروخت پر پابندی بھی عائد کی گئی۔
این آر اے نے 1963 میں صدر کینیڈی اور 1968 میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے قتل کے بعد بھی اسلحے کی فروخت سے متعلق قانون سازی کی حمایت کی اور رائے عامہ بھی ہموار کی۔ لیکن اس دور میں بھی این آر اے امریکہ میں اسلحے کی رجسٹریشن کے کسی مرکزی نظام کے قیام کی مخالف رہی۔
نیشنل پبلک ریڈیو کے مطابق 1960 کی دہائی میں جب اسلحہ پر نئے ضوابط عائد کیے جارہے تھے تو این آر اے نے اس کی حمایت تو کی لیکن انہیں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے اپنے حامیوں کی جانب سے دباؤ کا سامنا بھی تھا۔
اسی دوران 1971 میں امریکہ کے فیڈرل بیورو آف الکحل، ٹوبیکو اینڈ فائر آرمز نے این آر اے کے ایک رکن کے خلاف کارروائی کی جس نے بڑی مقدار میں اسلحہ جمع کررکھا تھا۔ اس کارروائی کے دوران وہ رکن ہلاک ہوگیا۔
سن 1975 کے بعد این آر اے نے اسلحے سے متعلق قانون سازی کے لیے پالیسی سازی پر پر اثر انداز ہونے کے لیے ’انسٹی ٹیوٹ فور لیجسلیٹیو ایکشن‘ بناکر لابنگ کے لیے باقاعدہ اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔
سن 1977 میں این آر اے نے پولیٹیکل ایکشن کمیٹی (پی اے سی) تشکیل دی۔ یہ کمیٹی قانون سازوں سے رابطے قائم کرکے اور انتخابی مہم میں انہیں مالی معاونت فراہم کرکے قانون سازی پر اثرانداز ہونے لگی۔
Your browser doesn’t support HTML5
فنڈنگ اور بجٹ
این آر اے کا شمار امریکہ کے با اثر ترین لابی گروپس میں ہوتا ہے۔ اسلحے سے متعلق قانون سازی پر اثر انداز ہونے کے لیے اس کے پاس غیر معمولی بجٹ ہے۔این آر اے کے مطابق اس کے 50 لاکھ اراکین ہیں جو اسے فنڈنگ فراہم کرتے ہیں اس کے علاوہ اسلحہ ساز صنعت بھی اسے بڑے عطیات دیتی ہے۔
امریکہ میں سیاسی امور میں سرمائے کے استعمال سے متعلق تحقیق کرنے والی غیر جانب دار اور غیر منافع بخش تنظیم ’اوپن سیکریٹ‘ کے مطابق این آر اے اوسطاً ہر سال 25 سے 30 کروڑ ڈالر لابنگ پر خرچ کرتی ہے۔
’اوپن سیکریٹ‘ کے مطابق 1998 سے 2020 تک اسلحہ رکھنے کے حق کی حمایت کرنے والے مختلف گروپس نے 17 کروڑ ڈالر سے زائد رقم قانون سازی پر اثر انداز ہونے والی کوششوں پر خرچ کیے۔ 2010 سے 2020 کے دوران صرف این آر اے نے اسلحہ سازی کے حق میں قانون سازی کے لیے فضا ہموار کرنے پر 14 کروڑ روپے خرچ کیے۔
اوپن سیکریٹ کے مطابق این آر اے اور گن لابی سب سے زیادہ قدامت پسند اور ری پبلکن ارکان کی مالی معاونت کرتی ہے۔ 2016 میں مبینہ طور پر صدر ٹرمپ اور سینیٹ میں چھ ری پبلکن امیدواروں کی معاونت پر پانچ کروڑ ڈالر خرچ کیے۔
اوپن سیکریٹ کے مطابق 2020 میں این آر اے نے براہ راست سیاست دانوں کو چھ لاکھ ڈالر کی فنڈنگ کی جن میں اکثریت ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے رہنما تھے۔
تنظیم کتنی بااثر ہے؟
نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کے مطابق پورے امریکہ میں اس کے ارکان کی تعداد 50 لاکھ سے زائد ہے جب کہ بعض مبصرین ارکان کی تعداد سے متعلق تنظیم پر مبالغہ آرائی کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔
این آر اے کے ارکان میں سیاست سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نمایاں امریکی بھی شامل ہیں۔ سابق صدر جارج بش سینئر بھی اس کے رکن رہے تاہم 1995 میں این آر اے کے صدر کے ایک منتازع بیان پر اس کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ نائب صدارت کی سابق امیدوار سارا پالن، ادا کار ٹام سیلک، ووپی گولڈ برگ اور آسکر ایوارڈ یافتہ لیجنڈ اداکار چارلٹن ہیسٹن اس کے رکن اور1998 سے 2002 تک تنظیم کے صدر بھی رہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
این آر اے اسلحے کے استعمال کی مشق کے لیے گن رینجز بناتی ہے۔ باقاعدہ اور غیر رسمی طور پر اسلحہ سے متعلق قانون سازی کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کرتی ہے اور اسے لابنگ کے فعال ترین گروپ میں شمار کیا جاتا ہے۔
این آراے پر تنقید
امریکہ میں گن وائلنس اور ماس شوٹنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے اس کی روک تھام کے لیے اسلحے تک رسائی محدود کرنے اور اس کی خریداری کے لیے چھان بین کی کڑی شرائط عائد کرنے کے مطالبات زور پکڑ رہے۔
این آر اے سمیت گن لابی میں شامل گروپ گن کنٹرول سے متعلق قانون سازی کو روکنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتی ہے اور اسے آئین کی دوسری ترمیم میں دیے گئے اسلحہ رکھنے کے بنیادی حق کا دفاع قرار دیتی ہے۔
این آر اے کے ناقدین اس موقف کو آئین کی غلط تعبیر قرار دیتے ہیں اور اس پر اسلحہ سازی کی صنعت کے مفادات کے تحفظ کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔ جب کہ این آر اے خود کو شہری حقوق کی تنظیم قرار دیتی ہے۔
ٹیکساس کے اسکول میں ہونے والے حالیہ قتلِ عام کے بعد این آر اے اسی ریاست کے شہر ہیوسٹن میں اپنا سالانہ کنونشن منعقد کررہی ہے۔ اس کنونشن کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان اس سانحے سے قبل کیا گیا تھا لیکن گن کنٹرول کے حامی تنظیم کے اس اقدام پر تنقید کررہے ہیں۔این آر اے نے ماس شوٹنگ کے واقعے کی مذمت کی ہے اور متاثرین سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا ہے۔
ماضی میں این آر اے مختلف ریاستوں میں ماس شوٹنگ کے واقعات بعد وہاں اپنے طے شدہ کنونشن منعقد کرتی رہی ہے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق لیکن اس بار نہ صرف این آر اے کو ناقدین کی مخالفت کا سامنا ہے بلکہ اندورنی اختلافات بھی درپیش ہیں۔
’رائٹرز‘ کے مطابق وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کرین جان پیئرکا کہنا تھا کہ سوال کنونشن کا نہیں ہے۔ اصل میں نامناسب بات یہ ہے کہ وقت نے ثابت کیا ہے کہ این آر اے کی قیادت گن وائلنس کے مسئلے کو بڑھا رہی رہے، اسے حل کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کررہی۔
[اس تحریر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں]