فرانس ایک ایسے موقع پرمغربی افریقہ کے ملک نائیجر سے فرانسیسی اور دیگر یورپی ملکوں کے شہریوں کو نکالنے کی کوشش کر رہا ہے جب نائیجر کے جمہوری طور پر منتخب صدر محمد بازوم کے خلاف گزشتہ ہفتے کی بغاوت کے بعد ملک بحران کی کیفیت میں ہے ۔ فرانس نے اپنے اور یورپی ملکوں کے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ اپنا ضروری سامان تیار کر لیں۔ نائجر کے دارالحکومت نیامے میں ہونے والے حالیہ تشدد کے دوران فرانسیسی سفارت خانے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اندازہ ہے کہ بغاوت برپا کرنے والے فوجیوں کو مغربی افریقہ کے ان تین ملکوں کی حمایت حاصل ہے، جہاں اقتدار پر فوجی قابض ہیں۔
نائیجر کی سرحدیں لیبیا، مالی، برکینا فاسو، الجیریا , چاڈ اور نائیجیریا سے ملتی ہیں۔ یہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہےجسے مغربی افریقہ سے آنے والے تارکین وطن کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی سامنا ہے ۔ تارکین وطن یورپ کی طرف اپنا راستہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نائیجر نےا سمگلروں کے ذریعے ترک وطن کی کوششوں کو روکنے کے لیے یورپی یونین سے لاکھوں یورو کی رقم حاصل کی ہے۔
فرانس کی وزارت خارجہ کےمطابق ، نائیجر کی فضائی حدود کی بندش کے نتیجے میں وہاں موجود فرانسیسی شہریوں کے لئے ملک چھوڑنا مشکل ہو رہا ہے۔لیکن منگل کے روز سے ان فرانسیسی اور دیگر یورپی شہریوں کا نائیجرسے انخلاء شروع ہو رہا ہے جو نائجر کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔اندازہ ہے کہ اس وقت کئی سو فرانسیسی شہری نائیجر میں موجود ہیں۔ یہ ملک فرانس کی ایک سابق کالونی رہا ہے۔
نائیجر کی فوجی بغاوت امریکہ کے لئے اہم کیوں؟
نائیجر میں فوجیوں کی بغاوت کو امریکہ میں بے حد غور سے دیکھا جا رہا ہے۔ نائیجر میں امریکی فوج کے ایک ہزار سے زیادہ اہل کار اسلامی شدت پسندوں کے مختلف گروہوں کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے موجود ہیں۔ملک میں بدھ کے روز ہونے والی بغاوت کے بعد امریکی فوجی کارروائیوں کے بارے میں بھی سوال اٹھ رہے ہیں ۔
نائیجرنے حالیہ برسوں میں ایسے فوجی قبضے سے گریز کیا تھا جو اس کے مغربی افریقی پڑوسیوں کو غیر مستحکم کرے۔اس ملک کو فرانکوفون علاقے میں انتہا پسندی کے خلاف نبرد آزما آخری بڑےحلیف کے طور پر دیکھا جاتا تھا جہاں فرانس مخالف جذبات نے روس کے نجی ملٹری گروپ واگنر کے لیے راہ ہموار کی تھی۔ نائیجر کے ارد گرد مختلف اسلامی انتہا پسند گروہ سرگرم ہیں۔
نائیجر افریقہ کے شمال میں صحرائے صحارا کے زیریں علاقے کا وسیع و عریض حصہ ہے جسے برسوں سے اسلامی شدت پسندوں کے مختلف گروہوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے اس خطے میں نائیجر کی اہمیت کے پیش نظر مارچ میں یہاں کا دورہ کیا جس کا مقصد تعلقات کو مضبوط بنا نا تھا ۔ انہوں نے اس ملک کو ’’جمہوریت کا نمونہ‘‘ قرار دیتے ہوئے 15 کروڑ ڈالر کی براہ راست امداد کا اعلان کیا تھا ۔
علاقائی سلامتی کے لیے نائیجر کی اہمیت اور روس کے جنگجو گروپ واگنر کا کردار ؟
اس خطے میں واگنر گروپ بھی اپنی کارروائیاں کرتا رہتاہے۔اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا نائیجر اپنے ہمسایہ ممالک مالی اور برکینا فاسو کی طرح دہشت گردی کے خلاف اتحاد میں پارٹنر کے طور پر واگنر کو شامل کر سکتا ہے۔
فرانس نے گزشتہ سال مالی سے انخلاکے بعد اپنے ایک ہزار سے زائد اہل کاروں کو نائیجر منتقل کیا تھا۔واگنر کے سربراہ یوگینی پریگوزن نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ ’’نائیجر میں جو کچھ ہوا وہ نوآبادیات کے خلاف اس کے اپنے لوگوں کی لڑائی ہے اور اس کا مطلب مؤثر طریقے سے آزادی کا حصول ہے۔اب صورت حال کا انحصار خود نائیجرکے عوام پر ہوگا۔
نائیجر کے دارالحکومت نیامی میں جمعرات کو سینکڑوں افراد جمع ہوئے اور انہوں نے روسی پرچم لہراتے ہوئے واگنر کی حمایت میں نعرے لگائے۔
لندن میں چیتھم ہاؤس تھنک ٹینک میں افریقی پروگرام کے فیلو پال میلی کا کہنا ہے کہ نائیجر کی حکومت ’’ مذاکرات کے معاملے میں اور مقامی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ رابطہ کاری کے لیے بہت کشادہ رویہ رکھتی ہے اور یہاں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔‘‘
نائیجر برسوں سے بین الاقوامی فوجی کارروائیوں کا ایک اڈہ رہا ہے کیونکہ اسلامی انتہا پسندوں نے ساحلی خطے میں اپنی رسائی میں بہت اضافہ کر لیا ہے۔ ان میں ہمسایہ ملک نائیجیریا اور چاڈ میں بوکو حرام کی موجودگی دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن زیادہ فوری خطرہ مالی اور برکینا فاسو کے ساتھ نائیجر کے سرحدی علاقوں کو لاحق ہے جو اسلامک اسٹیٹ ان دی گریٹر صحارا اور القاعدہ سے منسلک جماعت نصرت الاسلام ولمسلمین (جے این آئی ایم)کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے ہے۔ اسی دوران نائیجر کے فوجی اخراجات 2021 میں 20 کروڑ ڈالر سے بڑھ گئے تھے ۔
انسداد دہشت گردی کی کوششیں
ساحلی خطے میں انتہا پسندوں سے نبرد آزما امریکی شراکت داروں میں کمی ہو رہی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مالی کی فوجی ہنتا نے گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے 15 ہزار اہل کاروں پر مشتمل مضبوط امن مشن کو یہ کہتے ہوئے ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا کہ وہ اپنے مشن میں ناکام رہے ہیں۔ تاہم واگنر فورسز وہاں موجود ہیں جن پر صورت حال کے نگرانوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مظالم کا الزام لگایا ہے۔
امریکہ نے 2021 کے اوائل میں کہا تھا کہ اس نے 2012 سے نائیجر کو 50 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی فوجی امداد اور تربیتی پروگرام فراہم کیے ہیں جو سب صحارا افریقہ میں اس طرح کے بڑے امدادی پروگراموں میں سے ایک ہے۔ یورپی یونین نے اس سال کے شروع میں نائیجرمیں تین کروڑ ڈالر کا فوجی تربیتی مشن شروع کیا تھا۔
امریکہ نے ساحل کے وسیع علاقے میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر نائیجر کے دور افتادہ شمال میں قائم اڈے سے ڈرونز استعمال کیے ہیں۔ اس ہفتے کی بغاوت کے بعد اس اڈے اور ملک میں دیگر امریکی آپریشنل سائٹس کی آئندہ صورت حال کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
یو ایس افریقہ کمانڈ کے ترجمان جان مینلی نے ایک ای میل میں کہا کہ ’’ مستقبل کے ممکنہ اقدامات یا سرگرمیوں کے بارے میں قیاس آرائی کرنا قبل از وقت ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ تقریباً گیارہ سو امریکی اہل کار نائیجر میں موجود ہیں۔
نائیجر میں حالیہ برسوں میں افریقہ میں امریکی افواج کو مہلک ترین مقابلوں کا سامنا رہا ہے۔ 2017 میں انتہا پسندوں کی طرف سے گھات لگا کر حملہ کیا گیا جس میں چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے نے واشنگٹن میں کچھ ناقدین کی طرف سے ایک بار پھر سوالات اٹھائے کہ امریکہ اس براعظم میں کیوں ملوث ہوا۔
خطے میں انتہا پسندی کس قدر بڑھ رہی ہے؟
مبصرین کا کہنا ہے کہ مغربی افریقہ کا ساحلی علاقہ انتہا پسندی کے حوالے سے دنیا کے مہلک ترین خطوں میں سے ایک بن گیا ہے۔ ایک اعلیٰ علاقائی اہل کار نے اس ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ مغربی افریقہ میں اس سال کے پہلے چھ مہینوں میں 1800 سے زائد شدت پسند حملے ریکارڈ کیے گئے جن کے نتیجے میں تقریباً 4600 افراد ہلاک ہوئے۔
عمر ٹورے مغربی افریقی اقتصادی بلاک کے انتظامی شعبے ایکوواس (ECOWAS)کمیشن کے صدر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان میں سے بیشتر اموات برکینا فاسو اور مالی میں ہوئیں جب کہ نائیجرمیں ہونے والی ہلاکتوں کی کل تعداد صرف 77 رہی۔ مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ انتہا پسندی کا خطرہ جنوب کی طرف گھانا اور آئیوری کوسٹ جیسی ریاستوں کی طرف پھیل رہا ہے۔
نائیجر میں ہونے والی بغاوت نے مزید عدم تحفظ پیدا کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس نے کہا کہ ’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ صحارا کے جنوب کی پوری پٹی انتہائی پریشان کن علاقہ بنتی جا رہی ہے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔)