پاکستان میں قیدیوں کی حالت زار کے بارے میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک کی 116 جیلوں میں لگ بھگ 64 ہزار قیدی رکھنے کی گنجائش موجود ہے، لیکن اس وقت ان جیلوں میں تقریباً 80 ہزار قیدی موجود ہیں اور ان میں 67 فیصد ایسے ہیں جن کے مقدمات کی سماعت ابھی مکمل ہونا باقی ہے۔
یہ اعداد و شمار وفاقی محتسب کی طرف سے پاکستان کی عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیش کی گئی رپورٹ میں بتائے گئے ہیں جو پاکستان کی مختلف جیلوں میں قیدیوں کی حالت زار کے معاملے پر ازخود نوٹس کے تحت سماعت کر رہا ہے۔ اس بینچ کی سربراہی چیف جسٹس گلزار احمد کر رہے ہیں۔
قبل ازیں عدالت عظمی نے وفاقی محتسب کے دفتر سے کہا تھا کہ وہ پاکستان کی جیلوں میں قید افراد، خصوصی طور پر خواتین قیدیوں کو درپیش مشکلات کے ازالے کے لیے سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔
پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ نے بدھ کو سماعت کے دوران متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ پاکستان کی مختلف جیلوں میں قیدیوں کے بارے میں وفاقی محتسب کے دفتر کی رپورٹ کا وفاقی اٹارنی جنرل اور متعلقہ صوبوں کے ایڈوکیٹ جنرلز کو فراہم کریں تاکہ متعلقہ حکام ان سفارشات کے تحت عملی اقدامات بروئے کار لائیں۔
سپریم کورٹ کے وکیل حافظ احسان احمد کھوکھر کے ذریعے وفاقی محتسب کے دفتر کی طرف سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی 116 جیلوں میں 64 ہزار قیدی رکھنے کی گنجائش ہے لیکں اس وقت ان جیلوں میں تقریباً 80 ہزار قیدی موجود ہیں جو گنجائش سے لگ بھگ 15 ہزار پانچ سو زائد ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب کی 43 جیلوں میں 48 ہزار سے زائد، سندھ کی 24 جیلوں میں 17 ہزار سے زائد، خبیر پختونخواہ کی 38 جیلوں میں لگ بھگ 12 ہزار سے زائد قیدی موجود ہیں۔ جب کہ بلوچستان پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں ک 11 جیلوں میں دو ہزار سے زائد زائد قید ی موجود ہیں جب کہ وہاں قیدی رکھنے کی گنجائش 2585 ہے۔
پاکستان کی جیلو ں میں اس وقت 1200 سے زائد قیدی خواتین ہیں جب کہ نابالغ قیدیوں کی تعداد 1273 بتائی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان کی مختلف جیلوں میں اس وقت کرونا وائرس سے متاثرہ 134 قیدی ہیں۔ ان میں سے 5 پنجاب، 42 سندھ ، 34 خیر پختونخواہ اور 57 بلوچستان میں ہیں۔ ان کے بارے میں مزید تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔
رپورٹ میں پاکستان کی مختلف جیلوں میں قیدیوں کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے مختلف سفارشات اور تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔ جن میں جیل کے متعلقہ قواعد و ضوابط میں جامع اصلاحات کے علاوہ کئی دیگر اقدمات بھی تجویز کیے گئے ہیں۔
رپورٹ میں پاکستان کی تمام صوبائی حکومتوں کو ہر ضلع میں ایک جیل، جب کہ اسلام آباد کے وفاقی علاقے میں بھی ایک جیل قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جن میں خواتین اور بچوں کی رہائش کے لیے الگ بیرکس کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں پاکستان کی چار صوبائی حکومتوں کو قیدیوں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ضلع کی سطح پر نگران کمیٹی اور قیدیوں کی فلاح و بہبود سے متعلق کمیٹی قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جو اپنے متعلقہ علاقے میں واقع جیل کی صورت حال اور وہاں قیدیوں کو درپیش مسائل کا جائزہ لے سکے اور وقتاً فوقتاً جیل کا دورہ بھی کر سکے۔ تجویز میں کیا گیا ہے کہ اس کمیٹی میں سول سوسائٹی کے نمائندوں، تعلیم اور صحت سے متعلق افراد سمیت ضلع بار کونسل کا نمائندہ بھی شامل ہو۔ اور اس کمیٹی کے لیے فوکل پرسن کا تعیین کرنا متعلقہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہو گی۔
رپورٹ میں جیلوں میں قیدیوں کے لیے تعلیم کے مناسب مواقع فراہم کرنے کے اقدامات کی بھی تجویز دی گئی ہے۔
محتسب کے دفتر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تمام صوبائی حکام کی طرف سے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق یہ ضروری خیال کیا گیا ہے کہ سندھ حکومت کی طرح دیگر صوبائی حکومتوں کو بھی فرسودہ جیل قوانین اور قواعد و ضوابط پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ پروبیشن اور پیرول کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیے متعلقہ قوانین میں مناسب ترامیم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان میں انسانی حقوق کے غیر سرکاری ادارے' ایچ آر سی پی' کے وائس چیئر پرسن کامران عارف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جیلوں کی صورت حال باعث تشویش ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کی جیلوں میں 67 فیصد قیدی وہ ہیں جن کے مقدمات کی سماعت ابھی مکمل ہونا باقی ہے۔
کامران عارف کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جیلوں میں اتنی بڑی تعداد میں انڈر ٹرائل قیدی کیوں ہیں۔ ایک طرف یہ یہ جیل کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف اس معاملے کا تعلق عدالتی نظام سے ہے۔
کامران عارف کے خیال میں جب بھی پاکستان کی جیلوں میں انڈر ٹرائل قیدیوں کی شرح 15 یا 20 فیصد سے بڑھ جائے تو ہمیں اپنے عدالتی نظام کی طرف دیکھنا ہے کہ آیا انڈر ٹرائل قیدیویں کے مقدمات کی سماعت مکمل نہیں ہو رہی اور یا انہیں ضمانت پر رہائی مل رہی ہے۔
اگرچہ رپورٹ میں ایسے قیدیوں کی تفصیل فراہم نہیں کی گئی جنہیں سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ لیکن کامران عارف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مختلف جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی ضمانت پر رہائی ممکن نہیں ہے اور ان کے رہنے کا ماحول نامناسب ہے۔ ایک سیل میں بعض اوقات چھ سے سات قیدیوں کو بھی رکھا جاتا ہے جو باعث تشویش ہے۔
SEE ALSO: پنجاب میں سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقاریر کے الزام میں مقدمات اور گرفتاریاںکامران عارف کا کہنا تھا کہ جیلوں کے معاملات پر نظر رکھنے کے لیے بااختیار کمیٹوں کی ضرورت ہے تاکہ غیر مناسب صورت حال کا بروقت تدارک کیا جا سکے۔
اگرچہ پاکستان کی بعض جیلوں میں قیدیوں کی تعلیم کے غیر رسمی مواقع موجود ہیں لیکن انہین منظم اور مربوط نظام کے تحت لانا ہو گا تاکہ خواہش مند قیدیوں کو یہ سہولت آسانی سے فراہم ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ قیدیوں کی اصلاح کے پروگرام بھی وضح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جب وہ اپنی سزا کاٹنے کے بعد جیل سے باہر آئیں تو ایک مفید شہری بن سکیں۔
اگرچہ حکومت بھی جیلوں میں بند قیدیوں اور خصوصاً خواتین قیدیوں کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے کئی اقدامات تجویز کر چکی ہے، لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔