پنجاب میں انسداد دہشتِ گردی کے محکمے (سی ٹی ڈی) نے اسلامی مہینے محرم میں سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقاریر کے الزام میں 87 علما کے خلاف مقدمے کے اندراج کے علاوہ کئی کو نقصِ امن کے پیشِ نظر گھروں میں نظر بند کر دیا ہے۔
یہ کارروائی پنجاب حکومت کے اس فیصلے کے بعد سامنے آئی ہے جس میں سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد پر کارروائی کا اختیار 'سی ٹی ڈی' کو بھی دیا گیا ہے۔
بعض علمائے کرام نے سی ٹی ڈی کو یہ اختیار دینے کی مخالفت کی ہے جب کہ کئی علما نے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اسلامی مہینے محرم میں نظریاتی اور مذہبی اختلافات پر مبنی ویڈیوز سوشل میڈیا پر جاری کرنے کی کئی شکایات موصول ہوئی تھیں۔
سی ٹی ڈی پنجاب کے مطابق مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اِس سلسلے میں کسی بھی شخص کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔
سی ٹی ڈی کی جانب سے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق محرم کے دوران اوراِس سے قبل سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت (ہیٹ اسپیچ) پھیلانے والے 218 افراد کے خلاف سخت کارروائی کی گئی ہے۔
ترجمان سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ 87 افراد کے خلاف صوبے کے مختلف شہروں میں مقدمات درج کر کے اُنہیں جیل بھیجا گیا ہے جب کہ 43 افراد کو تین ایم پی او یعنی 'مینٹینینس آف پبلک آرڈر' کے تحت نظر بند کیا گیا ہے۔
ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق 'کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ' نے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی مدد سے چار ہزار سے زائد ایسے سوشل میڈیا پیجز کو بند کیا ہے جن پر مذہبی منافرت پر مشتمل مواد تھا۔
'سوشل میڈیا پر ہر کوئی لیڈر بننے کی کوشش کرتا ہے'
عزاداری کونسل آف پاکستان کے چیئرمین علامہ سید ذوالفقار علی نقوی سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے مذہبی منافرت کو ہوا مل رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بعض مسالک کے علما اہل تشیع حضرات پر نکتہ چینی کرتے ہیں جس سے لامحالہ لوگوں میں بے چینی بڑھتی ہے۔
اُن کے بقول بعض شیعہ علما بھی بغیر تحقیق کیے سوشل میڈیا پر اپنی تقاریر جاری کر دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہر کوئی لیڈر بننے کی کوشش کرتا ہے جس سے نفرت جنم لیتی ہے۔
علامہ ذوالفقار نقوی سمجھتے ہیں کہ اگر مسالک کے درمیان بحث کرنا مقصود ہو تو سوشل میڈیا کے بجائے آمنے سامنے بیٹھ کر پرامن ماحول میں گفتگو کرنی چاہیے۔
عالمِ دین علامہ طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ معاشرے میں علم کم پھیل رہا ہے اِس لیے جہالت زیادہ ہے.
اُن کے بقول مجموعی طور پر محرم امن اور محبت کے ساتھ گزرا ہے چند ایک جگہ پر واقعات ہوئے ہیں جن کے خلاف اداروں نے کارروائی کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ ایک چھوٹی سی چنگاری بھی پورے گھر کو جلا دیتی ہے۔
طاہر اشرفی سمجھتے ہیں کہ محکمہ سی ٹی ڈی کو اس لیے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کیوں کہ عام پولیس کے حوالے سے لوگوں کو شکایت رہتی ہے کہ وہ بروقت کارروائی نہیں کرتی۔
اُن کے بقول سی ٹی ڈی مقامی سطح پر حقائق سے زیادہ واقف ہے۔ لہذٰا جو لوگ نفرت پھیلاتے ہیں اُن کے خلاف کارروائی ہو تو ایسے واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔
طاہر اشرفی کے بقول ہر مسلک میں شر پسند عناصر موجود ہوتے ہیں چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی، لہذٰا ان کی حوصلہ شکنی بہت ضروری ہے۔
علامہ ذوالفقار نقوی کہتے ہیں کہ حکومت کو اس معاملے میں توازن رکھنے کی ضرورت ہے۔ اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران گرفتار کیے گئے اہل تشیع حضرات کو رہا کیا جائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان چند معاملات پر ہی اختلافات ہیں۔ بہت سی قدریں مشترک بھی ہیں۔ لیکن دونوں مسالک ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرتے ہیں۔
'حکومتیں کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہیں'
پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' سمجھتی ہے کہ معاشرے میں مذہبی منافرت روکنے کا کام سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کو کرنا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین 'ایچ آر سی پی' ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ایسی کارروائیاں روکنے کے لیے جو کام کرنا چاہیے نہ وہ پہلے کسی حکومت نے کیا ہے نہ موجودہ حکومت کر رہی ہے اور کرنا بھی نہیں چاہتی۔
ڈاکٹر مہدی حسن کے بقول جب تک پاکستان میں مذہب کارڈ استعمال ہوتا رہے گا۔ مذہبی منافرت بھی بڑھتی رہے گی۔ اُن کے بقول پاکستان میں کسی سیاسی جماعت نے سنجیدگی سے مذہبی ہم آہنگی کے لیے کوششیں نہیں کیں۔
اُن کے بقول جو لوگ الیکشن نہیں جیت سکتے ہماری حکومتیں اُن کے دباؤ میں آ جاتی ہیں۔
پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے مطابق سوشل میڈیا پرمذہبی منافرت اور نفرت انگیزمواد پھیلانے والوں کے خلاف ایف آئی اے بھی کارروائی کرتا ہے۔ ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ بھی اس حوالے سے متحرک ہے۔
محکمہ داخلہ پنجاب کے مطابق رواں سال اب تک سوشل میڈیا پر فرقہ واریت اور نفرت انگیز مواد شائع کرنے کے 143 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ نفرت انگیز مواد کی شئیرنگ میں فیس بک 123 کیسز کے ساتھ سرِ فہرست ہے۔ واٹس ایپ پر 113 کیسز جب کہ یوٹیوب پر7 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
محکمے کے مطابق 143 میں سے صرف 66 واقعات پرمقدمات درج ہوئے ہیں جب کہ 77 کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔