دنیا میں ذیابیطس کے مریضوں میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔عالمی ادارۂ صحت کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 1980ء سے ذیابیطس کی مریضوں کی شرح بتدریج بڑھ رہی ہے اور یہ مرض اس وقت دنیا میں ایک وبا کی طرح پھیل رہا ہے۔
ہم جو غذا استعمال کرتے ہیں اس کا بیشتر حصہ گلوکوز یا شوگر میں تبدیل ہوجاتا ہے جسے ہمارا جسم توانائی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ذیابیطس کا مرض لاحق ہونے کی صورت میں خون میں گلوکوز کی سطح معمول کے مقابلے میں زیادہ ہوجاتی ہے۔
تھامس جیفرسن یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر انتخاب احمد کا کہنا ہے کہ عام طور پر ذیابیطس کی دو اقسام ہیں: ذیابیطس ٹائپ 1 اور ذیابیطس ٹائپ 2۔ ٹائپ ون زیادہ تر لوگوں میں پیدائشی طور پر پایا جاتا ہے۔دوسری قسم کی ذیابیطس کی بڑی وجہ موٹاپا ہے۔
ڈاکٹر انتخاب کہتے ہیں کہ اگر کھانے میں توازن رکھا جائے اور اس میں پروٹین اور کاربوہائڈریٹ کی مناسب مقدار شامل ہو تو ذیابیطس سے بچاؤ ممکن ہے۔
ان کے بقول ذیابیطس ٹائپ ون جسم کے دفاعی نظام کو لبلبے کے انسولین بنانے والے خلیات کی مدد سے نقصان پہنچاتا ہے۔ انسولین جسم میں موجود گلوکوز کو توانائی میں بدلنے اور بلڈ شوگر لیول معمول پر رکھنے میں مدد دیتی ہے جو ذیابیطس ٹائپ 1 کے مریضوں میں نہیں ہوپاتا۔ ٹائپ 1 کا مرض کسی بھی عمر میں لاحق ہوسکتا ہے اور اس کے شکار افراد کو مرض کی شدت بڑھنے سے روکنے کے لیے انسولین کے انجیکشن لگانا پڑتے ہیں۔
ذیابیطس ٹائپ 2 اس مرض کی سب سے عام قسم ہے اور 90 فی صد افراد اسی کا شکار ہوتے ہیں۔ اس مرض کے لاحق ہونے کے نتیجے میں جسم انسولین کے اثرات پر ردعمل ظاہر کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ انسولین بنانے والے لبلبے کے خلیات اسے بنانے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر جسم کے لیے درکار مقدار کی فراہمی سے قاصر رہتے ہیں۔
ذیابیطس ٹائپ 2 لاحق ہونے کی صورت میں کچھ عرصے بعد انسولین بنانے والے نظام پر دباؤ بڑھ جاتا ہے اور خلیات تباہ ہونے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں جسم کی انسولین بنانے کی صلاحیت مزید کم ہوجاتی ہے۔ٹائپ ٹو کا مرض عام طور پر 40 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کو لاحق ہوتا ہے جس کے علاج کے لیے مناسب غذا اور ورزش وغیرہ پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔
اس وقت دنیا میں دونوں اقسام کی ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔لیکن ٹائپ ٹو کے 10 مریضوں کے مقابلے میں ٹائپ ون کا صرف ایک مریض ہو تا ہے۔