سن 2023 میں پاکستان خارجہ محاذ پر دوست ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید وسعت دینے کے لیے سرگرم رہا جب کہ بھارت کے ساتھ ساتھ افغانستان کے ساتھ اس کے تعلقات بدستور کشیدہ رہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے حال ہی میں 2023 میں پاکستان کے سفارتی تعلقات اور خارجہ پالیسی سے متعلق نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستان دنیا کے مختلف ممالک بشمول چین، امریکہ اور سعودی عرب، روس کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کے لیے کوشاں رہا۔
بین الاقوامی کے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2023 میں پاکستانی کی داخلی صورتِ حال پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئی۔ پاکستان کو سیاسی عدم استحکام اور سیکیورٹی چیلنجز کے ساتھ ساتھ ادائیگیوں کے توازن کا چیلنج بھی درپیش رہا۔
سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ گزشتہ سال پاکستان کو شدید معاشی چیلنج درپیش رہا جس کی وجہ سے اس کا انحصار دوست ممالک سے تعلقات بہتر بنانے پر رہا۔
اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ اس مشکل صورتِ حال کے باوجود پاکستان نے ایک طرف چین پاکستان اقتصادی راہداری 'سی پیک' کے منصوبے پر جو بظاہر سست روی پیدا ہوئی تھی اس کو بھی بھی تیز کرنے کی کوشش کی۔ دوسری جانب امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل 'ایس آئی ایف سی' بھی بنائی گئی۔
افغان طالبان کے ساتھ تعلقات میں پیچیدگی
گزشتہ سال پاکستان اور افغانستان میں طالبان حکومت کے تعلقات بھی پیچیدہ رہے، افغانستان میں اگست 2021 میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کی توقعات کے برعکس اسلام آباد اور کابل کے تعلقات میں سرد مہری پیدا ہو گئی اور یہ صورتِ حال 2023 میں بھی برقرار رہی۔
سرحدی جھڑپ کے باعث ستمبر 2023 میں طورخم سرحد کی بندش کی وجہ سے بھی تعلقات میں تناؤ پیدا ہو گیا۔ دوسری جانب پاکستان میں 'ٹی ٹی پی' کے مبینہ طور پر سرحد پار سے ہونے والے حملوں کی وجہ سے بھی کابل اور اسلام آباد کے باہمی تعلقات پیچیدہ رہے۔
اکتوبر کے اوائل میں پاکستان میں غیر ملکی تارکینِ وطن خاص پر پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم لگ بھگ 17 لاکھ افغان مہاجرین کو متاثر کیا جس کی وجہ سے نہ صرف افغان مہاجرین میں بے چینی پیدا ہوئی بلکہ اسلام آباد اور کابل کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار پروفیسر اعجاز خٹک کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے 2023 میں سب سے بڑا چیلنج افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا رہا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ افغان طالبان مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کی سرپرستی بھی کر رہے ہیں اور انہیں پاکستان پراثر انداز ہونے کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ افغان طالبان کا مؤقف ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔
اعجاز خٹک کے بقول افغان طالبان کی حمایت کر کے پاکستان نے باقی تمام افغان دھڑوں کو مخالف بنا لیا تھا۔ لیکن اب پاکستان کے لیے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات بھی ایک مشکل صورتِ حال سے دو چار ہیں۔
اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ افغان طالبان کا رویہ پاکستان کے لیے حیرت کا باعث بنا۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات قائم رہنے چاہئیں۔ لیکن ساتھ ہی پاکستان کو افغان طالبان کو یہ باور کرانا ہو گا کہ وہ ٹی ٹی پی سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کریں۔
امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن کی کوششیں
ماہرین کے مطابق امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی نوعیت تبدیل ہوئی جس کی جھلک 2023 میں بھی برقرار رہی۔ لیکن افغانستان میں دہشت گردوں کے پنپنے اور ٹی ٹی پی سے متعلق پاکستان کے خدشات پر امریکہ بھی اپنی تشویش ظاہر کرتا رہا۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ چین کے اُبھرتے ہوئے اثر و رسوخ کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے امریکہ کو خطے میں اتحادیوں کی ضرورت ہے۔ لیکن پاکستان کے لیے کھل کر کسی ایک ملک کی طرف مکمل جھکاؤ شاید ممکن نہ ہو۔
ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے حال ہی میں ایک نیوز کانفرنس میں پاکستان اور چین کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2023 میں اسلام آباد اور چین کے درمیان مضبوط تعاون جار ی رہا اور اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان انسدادِ دہشت گردی، بحری امور اور ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاملات پر مشاورتی اجلاس ہوئے۔
پاکستان کی طرف سے سی پیک کے منصوبوں کی رفتار کو تیز کرنے کے عزم کے باوجود تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان بیانات کے باوجود پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو متوازن رکھنا ہے۔
سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ لیکن اس کا مقصد یہ نہیں کہ پاکستان چین کے ساتھ تعلقات پر کوئی سمجھوتہ کرے گا۔
اُن کے بقول اب پاکستان میں یہ اتفاقِ رائے ہو رہا کہ پاکستان کو چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو اپنے قومی مفاد میں آگے بڑھانا ہو گا۔
اعجاز خٹک کہتے ہیں کہ چین اور امریکہ کیے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنے کا بیانیہ اچھا ہے اور پاکستان چاہتا ہے کہ دونون کے ساتھ تعلقات اچھے رہیں۔
لیکن اُن کے بقول پاکستان کو اقتصادی اور سفارتی محاذ پر جو چیلنجز درپیش ہیں، ایسے میں یہ توزان رکھنا مشکل نظر آ رہا ہے کیوں کہ دونوں جانب سے دباؤ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حماس۔اسرائیل جنگ اور پاکستان
گزشتہ برس اکتوبر میں حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد اسرائیل کی غزہ پر بمباری کے معاملے پر بھی پاکستان کو اپنے دیرینہ مؤقف کا اعادہ کرنا پڑا جو امریکی مؤقف سے بالکل مختلف تھا۔
امریکہ نے حماس کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کی بھرپور حمایت کا اظہار کیا جب کہ پاکستان نے اسرائیل کی غزہ پر بمباری کی مذمت کی۔ تاہم تنازع کے دو ریاستی حل پر دونوں ملکوں کا مؤقف ایک جیسا رہا۔
اعجاز خٹک کہتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ پاکستان اس معاملے کو ذرا دھیما رکھنا چاہتا ہے اور پاکستان میں اسرائیل مخالف مظاہروں کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی تاکہ امریکہ ناراض نہ ہو۔
دوسری جانب یوکرین روس تنازع میں 2023 میں بھی غیر جانب دار پوزیشن برقرار رکھنے میں کوشاں رہا۔ لیکن امریکی کمپنیوں کو مبینہ طور پر پاکستانی اسلحے کی فراہمی اور بعدازاں اس کی یوکرین کو فراہمی سے متعلق اطلاعات بھی آتی رہی ہیں جس کی پاکستان سختی سے تردید کر چکا ہے۔
پروفیسر اعجاز خٹک کہتے ہیں کہ پاکستان کے امریکہ اور یوکرین دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کی طرف سے مبینہ طور پر امریکہ کو اسلحہ اس لیے فراہم نہیں کیا گیا تھا کہ یہ یوکرین میں استعمال ہو گا کیوں کہ پاکستان چین اور روس کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہے گا۔
بھارت کے ساتھ تعلقات
سال 2023 میں پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ 2023 میں اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان دو طرفہ رابطوں کا سلسلہ محدود رہا۔
اگست 2019 میں بھارت کی طرف سے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم خود مختار آئینی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی اور اقتصادی رابطے نہایت کم سطح پر پہنچ گئے اور مستقبل قریب میں ان کے بحال ہونے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔