امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی کی طرف سے اپنی افواج کو دیے گئے احکامات کا خیرمقدم کیا ہے جن میں اُنھوں نے اُن شہری آبادیوں پر گولہ باری روکنے کے لیے کہا ہے جو شدت پسندوں نے قبضے میں لے رکھی ہیں۔
مسٹر عبادی نے یہ احکامات ہفتے کے دِن جاری کیے جن میں بے قصور افراد کی زندگیاں بچانے کے لیے کہا گیا ہے، ایسے میں جب عراق کی فوج دولت اسلامیہ کے شدت پسند گروپ سے علاقہ واپس لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ اُنھوں نے شدت پسندوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
’سی بی ایس نیوز‘ کے پروگرام ’فیس دِی نیشن‘ پر گفتگو کرتے ہوئے، مسٹر کیری نے کہا کہ ’یقینی طور پر یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا عراق کی سنی آبادی بے چینی سے انتظار کر رہی تھی‘۔
شیعہ قیادت والی حکومت پر شدت پسندوں کے خلاف تشکیل دیے جانےوالے متحدہ محاذ میں سنی اور کردوں کو شامل کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
عراقی فوج کے ماضی کے حربوں کے باعث، ایک مدت سے ملک کی سنی آبادی برہمی کا شکار رہی ہے، جس کے نتیجے میں متعدد افراد نے شدت پسندوں خیر مقدم کیا تھا جب اس سال کے اوائل میں وہ سنی اکثریتی علاقوں میں وارد ہوئے۔
دریں اثنا، نیویارک میں قائم ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے دو ہفتے قبل ہونے والی عراق کی ایک فضائی کارروائی کی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے جس دوران تکریت کے قریب واقع ایک اسکول ہدف بنا، جس میں 31 بے گھر افراد ہلاک ہوئے، جنھوں نے وہاں پناہ لے رکھی تھی۔
حقوق انسانی گروپ نے کہا ہے کہ زندہ بچ جانے والوں نے بتایا ہے کہ اسکول میں کوئی شدت پسند یا کوئی ہتھیار موجود نہیں تھے۔
ہیومن رائٹس واچ کے خصوصی مشیر، فرید ابراہمز نے کہا ہے کہ دولت اسلامیہ گروپ، ’انتہائی سفاک ہے۔ لیکن، اسے عذر بنا کر جو کچھ عراقی حکومت کر رہی ہے، وہ مناسب نہیں‘۔
چھان بین کے اس مطالبے پر، عراقی اہل کاروں نے کوئی بیان نہیں دیا۔
تاہم، ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عراقی حکومت کا کہنا ہے پائلٹ نے اسکول کے سامنے سے گزرنے والی ایک کار کو ہدف بنایا تھا، جس کے لیے بتایا گیا تھا کہ اُس میں عسکریت پسند سوار تھے اور آتشیں مواد لدا ہوا تھا، جس کے نتیجے میں ہونے والا دھماکہ تصور سے کہیں زیادہ شدید تھا۔