ایشیا اور بحرالکاہل کے خطوں میں واقع 15 ملکوں نے ایک نیا علاقائی اقتصادی معاہدہ کیا ہے جسے چین کی حمایت میں بننے والا سب سے بڑا تجارتی 'بلاک' قرار دیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے میں امریکہ شامل نہیں ہے۔
معاہدے پر اتفاق جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے ویت نام میں اتوار کو ہونے والے اجلاس کے دوران ہوا۔
دنیا میں ہونے والی ایک تہائی تجارتی سرگرمیاں معاہدے میں شامل رُکن ممالک کے ذریعے ہوتی ہیں۔
اس معاہدے کا نام ریجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنرشپ (آر سی ای پی) یعنی علاقائی جامع معاشی شراکت داری رکھا گیا ہے۔ معاہدے پر دستخط ویت نام کے دارالحکومت ہنوئی میں ہونے والے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے اجلاس کے دوران ہوئے۔
میزبان ملک ویت نام کے وزیراعظم گیوین شوان فوک نے کہا کہ آٹھ سال پر محیط محنت اور مذاکرات کے بعد اس معاہدے کے طے پانے پر اُنہیں دلی مسرت ہے۔
کرونا بحران کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ عالمی وبا کے باعث ہونے والے تجارتی خسارے سے نمٹنے کی کوششوں میں خطے کے ممالک کے لیے مددگار ثابت ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
معاہدے میں چین، آسٹریلیا، جاپان، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ سمیت خطے کے 10 ممالک شامل ہیں۔
ویت نام کے وزیر اعظم نے کہا کہ اس معاہدے سے آزاد تجارت پر اتفاق رائے سے دنیا کو یہ واضح پیغام جائے گا کہ آسیان ممالک باہمی تجارت کے فروغ، نئے تجارتی ڈھانچے کی تشکیل اور کرونا وبا کے باعث درپیش معاشی مسائل کا مل کر مقابلہ کرنے میں برتری لے رہے ہیں۔
اس معاہدے کو پہلی بار 2012 مں تجویز کیا گیا تھا اور اس کے عمل میں آنے سے تجارتی محصولات میں کمی آنے اور خدمات کے شعبوں میں تجارت کو فروغ ملے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے چین کو اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔