امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم نامے کے تحت چین کی ان تمام کمپنیوں میں امریکہ سے سرمایہ کاری پر پابندی لگا دی ہے جن کا چینی فوج کے ساتھ یا تو تعلق ہے یا وہ چین کی فوج کے کنٹرول میں ہیں۔
مبصرین کے مطابق سرمایہ کاری پر پابندی کا اقدام امریکہ میں حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد چین پر دباؤ ڈالنے کی ایک کڑی ہے۔
جمعرات کو جاری ہونے والے حکم نامے کا اثر چین کی بڑی کمپنیوں پر بھی پڑے گا جن میں چائنا ٹیلی کام کارپوریشن لمیٹڈ،چائنا موبائل لمیٹڈ اور سرویلنس کا ساز و سامان بنانے والی کمپنی ہاک ویژن شامل ہیں۔
یہ اقدام امریکہ کی سرمایہ کار فرمز، پینشن فنڈز اور شیئرز کی خرید و فروخت کرنے والی کمپنیوں کو چین کی 31 اداروں کے شئیرز خریدنے سے روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔ چین کی ان کمپنیوں کو امریکہ کے محکمۂ دفاع نے رواں برس کے اوائل میں چین فوج کے زیرِ اثر قرار دیا تھا۔
اس حکم نامے کے آئندہ برس 11 جنوری سے نافذ ہونے کے بعد تمام امریکی سرمایہ کار ان کمپنیوں کے حصص میں سرمایہ کاری نہیں کر سکیں گے۔
اس حکم کے تحت امریکی شہری اب کسی بھی ایسی کمپنی کے حصص میں سرمایہ کاری نہیں کر سکیں گے جن کو چین کی فوج سے منسلک قرار دیا جائے اور کسی بھی کمپنی کو چین کی فوج سے منسلک قرار دیے جانے کے 60 روز کے عرصے کے بعد اس حکم کا اطلاق ہو جائے گا۔
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چین امریکی سرمایہ اور وسائل کو اپنی فوج، انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ساز و سامان کی ترقی اور اسے جدید بنانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
امریکہ میں گزشتہ ہفتے ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج سامنے آنے کے بعد یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا اہم حکم نامہ ہے۔ مبصرین کے مطابق اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی صدارتی معیاد کے آخری مہینوں کو چین کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
امریکی صدارتی انتخاب کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن فیصلہ کن برتری حاصل چکے ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ نے انتخابات میں بے ضابطگیوں کے الزامات کی بنیاد پر شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے ابھی تک اپنے الزامات کے لیے ٹھوس ثبوت مہیا نہیں کیے۔
جمعرات کو اٹھائے گئے اقدام کی وجہ سے دنیا کی دو بڑی معیشتوں میں تعلقات میں مزید کشیدگی کا اندیشہ ہے۔ جو بائیڈن پہلے ہی چین کے حوالے سے اپنی پالیسی وضع کر چکے ہیں۔ تاہم خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ چین سے متعلق امریکی سخت اقدامات کو جاری رکھیں گے۔
یہ صدارتی حکم نامہ گزشتہ ہفتے ری پبلکن سینیٹر مارکو روبیو کے پیش کیے گئے بل سے مماثلت رکھتا ہے جس میں ایسی چینی کمپنیوں پر امریکہ کی سرمایہ کاری پر پابندی لگانے کی سفارش کی گئی تھی جنہیں واشنگٹن نے بلیک لسٹ کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق امریکی انتظامیہ اور کانگریس نے ایسی چینی کمپنیوں کے لیے امریکی سرمائے کے استعمال کو روکنا ہے جو امریکی قوانین کی پابندی نہیں کرتیں۔
اگست میں امریکی سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن اور محکمۂ خزانہ نے صدر ٹرمپ سے سفارش کی تھی کہ ایسی امریکی کمپنیوں کو ڈی لسٹ کر دیا جائے جو جنوری 2022 تک آڈٹنگ کی ضروریات کو پوری نہیں کرتیں۔