ماڈل اور اداکارہ قندیل بلوچ کے قتل کے مرکزی ملزم کی بریت پر خواتین کے حقوق کی تنظیموں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے, ان کا مطالبہ ہے کہ ریاسست یقینی بنائے کہ ایسے ہولناک جرائم میں ملوث عناصر سزا سے نہ بچ سکیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ نے پیر کو قندیل بلوچ قتل کے مرکزی ملزم ان کے بھائی محمد وسیم کو راضی نامہ ہونے پر اُس کی والدہ کی جانب سے مقدمے کی مزید پیروی نہ کرنے اور ملزم کو معاف کرنے پر بری کر دیا تھا۔
البتہ انسانی حقوق اور خواتین کے تحفظ کی تنظیمیں یہ سوال اُٹھا رہی ہیں کہ غیرت کے نام پر ہونے والے اس قتل میں ملزم کے والدین نے ہی اسے معاف کر دیا جس سے اس طرح کے واقعات کی حوصلہ افزائی ہو گی، لہذٰا ریاست کو اس مقدمے کی خود پیروی کرنی چاہیے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی پارلیمان نے ریپ اور غیرت کے نام پر قتل سے متعلق 2016 میں ایک بل منظور کیا تھا جس میں یہ شق شامل تھی کہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل میں ریاست بھی فریق بنے گی۔
مذکورہ قانون میں غیرت کے نام پر قتل کو ناقابلِ تصفیہ قرار دیا گیا تھا جب کہ جرم ثابت ہونے پر کم سے کم سزا عمر قید تجویز کی گئی تھی۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے مذکورہ بل کی منظوری پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
البتہ بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون کا اطلاق قندیل بلوچ قتل کیس پر نہیں ہوتا تھا کیوں کہ یہ بل اکتوبر 2016 میں منظور ہوا تھا جب کہ قندیل بلوچ کو جولائی 2016 میں قتل کیا گیا۔
قندیل بلوچ قتل کیس میں مدعی کے وکیل سردار محبوب بتاتے ہیں کہ کیس کی سماعت کے دوران قندیل بلوچ کی والدہ نے عدالتِ عالیہ میں بیان جمع کرایا دیا تھا کہ اُنہوں نے ملزم کو معاف کر دیا ہے۔ وہ اُس کے خلاف مزید کارروائی نہیں چاہتیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ملزم وسیم کے وکیل سردار محبوب نے کہا کہ 2019 میں ماتحت عدالت نے قندیل بلوچ کے بھائی محمد وسیم کو مرکزی ملزم کے طور پر عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ اںہوں نے کہا کہ اِس کیس کا ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں آیا۔ تفصیلی فیصلہ آنے پر وہ اِس بارے میں مزید بات کر سکیں گے۔
انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن اور ماہر قانون دان حنا جیلانی سمجھتی ہیں کہ کسی بھی کیس میں جب مدعی، گواہ یا ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہے تو پھر ریاست کو آگے آنا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حنا جیلانی نے کہا کہ ہر کریمنل کیس میں ریاست آگے ہوتی ہے، لیکن جب ریاست اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹے گی تو ظاہر ہے کہ مدعی تو ایسی صورت میں کیس نہیں لڑ سکتے۔ وہ تو زیادہ سے زیادہ ایک گواہ ہو سکتا ہے۔
مصنف اور قائداعظم یونیوسٹی کے شعبہ جینڈر اسٹڈیز کی سابقہ ڈائریکٹر فرزانہ باری سمجھتی ہیں کہ قندیل بلوچ قتل کیس میں مرکزی ملزم کی رہائی نے کئی سوالات کو جنم دیا ۔ اس میں ریاست کی استعداد کار پر بھی سوال اُٹھتے ہیں، دیکھنا یہ ہو گا کہ اب ریاست اس معاملے میں کیا کرتی ہے۔
حنا جیلانی کے بقول جب ریاست یا پراسیکیوشن کا محکمہ ایسے کیسوں کی پیروی کرتا ہے تو یہ بنام سرکار ہوتے ہیں۔ یعنی سرکار ہی پراسیکیوٹر ہوتی ہے۔
سن 2016 میں منظور ہونے والے بل سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے حنا جیلانی نے کہا کہ اِس ترمیم کا مقصد یہی تھا کہ مدعی کے کندھوں پر سے پراسیکیوشن کا بوجھ اُٹھایا جائے اور سرکار کے کندھے پر ڈالا جائے۔ ایسی صورت میں گواہوں کو لانا اور کیس کو آگے بڑھانا سرکار کا کام ہے۔
اُنہوں نے کہا اگر مدعی گواہوں یا ثبوتوں کو عدالت میں پیش نہیں کر سکا تو یہ سرکارکا کام ہے، لیکن اِس ترمیم کے بعد سرکار کم ہی متحرک نظر آئی ہے۔
فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ مذکورہ کیس یہ ظاہر کرتا ہے کہ پراسیکیوشن کمزور تھی جس کا ملزم کو فائدہ ہوا۔
گواہوں کے منحرف ہونے کے حوالے سے فرزانہ باری نے کہا کہ پاکستان میں کسی بھی کیس میں گواہوں کو کسی قسم کا کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پولیس کی تفتیش میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ مرکزی ملزم محمد وسیم نے قندیل بلوچ کو قتل کرنے کا ا عتراف کیا تھا۔
اُن کے بقول گواہوں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کا کام ہے۔ پاکستان میں جب گواہوں پر دباؤ آتا ہے یا لالچ میں آ کر وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ لیکن قندیل بلوچ قتل کیس میں ثبوت اتنا مضبوط ہے جس میں بریت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں وزیراعلٰی پنجاب کی ترجمان برائے ترقیٔ خواتین تنزیلہ عمران سے رابطہ کیا تو وہ دستیاب نہیں ہو سکیں۔
البتہ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر قندیل بلوچ قتل کیس کی خبر شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ " ہمیں بطور قوم ایسے نظام پر شرمندہ ہونا چاہیے۔"