|
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے جمعے کو جاری ہونے والی اپنی ورلڈ رپورٹ میں کہا ہے کہ اگرچہ عالمی سطح پر جمہوریت اور حقوق کے حوالے سے 2024 ایک ناہموار سال رہا ہے لیکن ایشیا بحرالکاہل خطے میں کچھ حوصلہ افزا علامات بھی دیکھنے میں آئیں ۔
رپورٹ میں بھارت، بنگلہ دیش اور جنوبی کوریا کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہاں لوگوں نے جمہوریت اور حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور جدوجہد کی جس میں وہ کامیاب رہے۔
رپورٹ میں وزیراعظم مودی کی پالیسیوں پر بھارتی ووٹروں کے ردعمل، شیخ حسینہ کے جبر کے خلاف طالب علموں کے ڈٹ کر کھڑے ہونے اور صدر یون سک یول کی جانب سے مارشل لاء لگانے کی کوشش کو جنوبی کوریا کے عوام کی طرف سے ناکام بنائے جانے کا حوالہ دیا گیا ہے۔
عوام کو حاصل ہونے والی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں میانمار اور افغانستان کی بات کرتے ہوئے کہا گیا ہے وہاں عوام ابھی تک جبر اور استبداد میں جکڑے ہوئے ہیں اور حکمرانوں کی سختیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
نیویارک میں قائم انسانی حقوق کے گروپ ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ترانہ حسن نے ایشیا بحرالکاہل خطے میں انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق رپورٹ پر اپنے تعارفی مضمون میں کہا ہے کہ جب حقوق کا تحفظ ہوتا ہے تو انسانیت پروان چڑھتی ہے اور جب اس سے انکار کیا جاتا ہے تو اس کی قیمت کا تعین انسانی زندگیوں پر نقش ہونے والی اثرات کرتے ہیں۔ یہ ہمارے دور کا ایک موقع بھی ہےاور چیلنج بھی۔
آئیے دیکھتے ہیں اس رپورٹ میں جنوبی ایشیائی خطے کے تین ملکوں، بنگلہ دیش، بھارت اور افغانستان کے متعلق کیا کہا گیا ہے۔
بنگلہ دیش
شیخ حسینه کے 15 برسوں پر پھیلے ہوئے اقتدار کو حکومت مخالفین اور حقوق کی آواز اٹھانے والوں کو ریاستی طاقت سے دبانے اور کچلنے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ شیخ حسینہ نے طالب علموں کے مطالبوں کو نظرانداز کر کے ان کے مظاہروں کو کچلنے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہو سکیں اور بالآخر انہیں اقتدارچھوڑ کر ملک سے فرار ہونا پڑا۔
ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شیخ حسینہ کی عوامی لیگ اور پولیس نے طالب علموں کے پرامن مظاہرین پر حملہ کیا۔ یہ مظاہرے ابتدائی طور پر سرکاری ملازمتوں میں کوٹے سے متعلق تھے۔
کوٹے کے تحت زیادہ تر سرکاری ملازمتیں 1971 کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں کے خاندانوں کے لیے مختص تھیں۔ طالب علم کوٹے کا خاتمہ اور میرٹ کے اطلاق کا مطالبہ کر رہے تھے۔
شیخ حسینہ کی حکومت نے مظاہروں کو کچلنے کے لیے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا۔ انٹرنیٹ کا بلیک آؤٹ اور کرفیو کا نفاذ کیا گیا اور اس دوران مظاہرین کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم دیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جولائی میں ہونے والے تشدد میں مبینہ طور پر 100 سے زیادہ بچوں سمیت لگ بھگ 1000 افراد لوگ مارے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت گرنے کے بعد شیخ حسینہ بھارت فرار ہو گئیں اور نوبیل انعام یافتہ شخصیت ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت قائم ہوئی۔
SEE ALSO: بنگلہ دیش میں عام انتخابات 2025 کے آخر یا 2026 میں ہو سکتے ہیں: ڈاکٹر یونسعبوری حکومت نے احتجاج کے دوران حراست میں لیے گئے ہزاروں افراد کو رہا کر دیا۔ ملک میں امن بحال کیا اور بنگلہ دیش اب جمہوری انتخابات کے راستے پر چل رہا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر یونس اپنی کوششیں احتساب پر مرکوز کیے ہوئے ہیں اورا نہوں نے انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کو مظاہروں کے دوران ہونے والی زیادتیوں اور ان کی بنیادی وجوہات کی تحقیقات کے لیے ایک ٹیم بھیجنے کی دعوت دی ہے۔
بھارت
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں بھارت میں 2024 کے انتخابات کو بامقصد جمہوری مزاحمت کا نام دیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ مزاحمت انتخابات کے نتائج کی شکل میں ظاہر ہوئی اور بھارتی ووٹروں نے ایک مقبول وزیراعظم نریندر مودی کو ان کے مسلم مخالف بیانات اور بعض پالیسیوں کی بنا پر اتنی نشستیں نہیں دیں جن کی ان کی پارٹی توقع کر رہی تھی۔ اور وہ ایوان میں حتمی اکثریت حاصل نہ کر سکے۔
ترانہ حسن کہتی ہیں کہ بھارت کے انتخابی نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ نظام سے منسلک چیلنجز کے باوجود جمہوریت اب بھی طاقت کو روکنے کی استطاعت رکھتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس طرح کی مزاحمتیں ایک اہم حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں کہ ناانصافی اور بدعنوانی کے ستائے ہوئے لوگ جب اپنی اجتماعی طاقت کو یکجا کرتے ہیں تو حکومتوں کو اپنے مفادات کی بجائے بنیادی حقوق برقرار رکھنے اور ان کی آواز پر کان دھرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
SEE ALSO: مودی کو انتخابات میں لگنے والے دھچکے سے مسلمانوں کے احساس تحفظ میں اضافہافغانستان
انسانی حقوق کے حوالے سے افغانستان ایک دوسرے انداز کی مثال ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں لوگوں کافی حقوق حاصل تھے جن میں سے زیادہ تر اب کابل کے حکمرانوں نے ان سے چھین لیے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پچھلے سال افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں سے ان کے حقوق اور آزادیاں چھین لی گئیں اور انہیں چھٹی جماعت سے آگے پڑھنے اور یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا گیا۔
طالبان حکمرانوں نے خواتین کو ملازمت کرنے سے بھی منع کر دیا اور یہ پابندی صرف نوکری کرنے تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ انہیں پابند کیا گیا کہ وہ محرم مرد کے بغیر اپنے گھر کی چار دیواری سے باہر نہیں نکل سکتیں۔
طالبان نے برائی کی روک تھام کے حوالے سے ایک قانون نافذ کیا جس میں خواتین پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ محرم مرد کے بغیر سفر نہیں کر سکتیں اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی استعمال نہیں کر سکتیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قانون خواتین اور لڑکیوں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنا چہرہ چھپائیں اور جب گھر سے باہر نکلیں تو چہرہ نقاب میں چھپا ہوا ہو۔ انہیں گانا گانے یا گھر سے باہر آواز دینے کی بھی ممانعت ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان قوانین کے تحت خواتین اور لڑکیوں کو حراست میں لیے جانے کے واقعات بھی ہو چکے ہیں۔
(وی او اے نیوز)