امریکہ میں قائم انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے افغانستان کے رہنماؤں سے آزادی اظہار کے تحفظ کے لیے صحافیوں اور میڈیا کی آزادی پر ہونے والے حملوں کی مذمت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے بدھ کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں ایسے واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں افغان حکومت صحافیوں کو ہراساں کرنے، ڈرانے، دھمکانے اور ان پر ہونے والے حملوں کے الزامات کی تحقیق اور اس سے متعلق قانونی کارروائی میں ناکام رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا کیا گیا ہے کہ ایسے واقعات کی تفتیش اور ان کے خلاف قانونی کارروائی میں ناکامی کی وجہ سے ایسے فریقوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جو حکومت، اس کی سکیورٹی فورسز اور افغان معاشرے کے دوسرے طاقتور گروہوں کے خلاف تنقید کو دبانا چاہتے ہیں۔
ہیومین رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے ان صحافیوں کو، جن کی رپورٹوں کو وہ اپنے حق میں نہیں سمجھتے، واضح طور پر نشانہ بنانے سے ان کا اس خوف کی فضا میں کام زیادہ متاثر ہوا ہے۔
صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ رویہ ان کو بدعنوانی، خواتین کے خلاف تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف وزریوں جیسے حساس معاملات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے (اپنے تحفظ کے پیش نظر) خبروں کو خود سنسر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ڈائریکٹرفلیم کائن نے کہا کہ صدر اشرف غنی میڈیا کو تحفظ فراہم کرنے کے اپنے انتخابی وعدے کا پاس کرتے ہوئے صحافیوں سے بدسلوکی کرنے والے کسی بھی شخص کے خلاف قانونی کارروائی کر کے اسے انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔
افغان میڈیا کے لیے کام کرنے والی 'نئی' نامی تنظیم نے ایک رپورٹ میں کہا کہ 2014ء افغانستان میں صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ پر تشدد سال رہا جس میں 2013ء کے مقابلے میں ان پر ہونے والے حملوں میں 64 فیصد اضافہ ہوا۔
طالبان نے 13 دسمبر کو صحافیوں کو یہ کہتے ہوئے واضح دھمکی دی تھی کہ وہ ایسے صحافیوں کو نشانہ بنائیں گے جو ان کے بقول "نام نہاد مغربی اقدار" کی حمایت کریں گے۔