آئی اے ای اے اور ایران کے درمیان اگلے ماہ تہران میں کیا بات چیت ہو گی؟

جنیوا میں آئی اے ای اے کے اجلاس کا ایک منظر

اقوام متحدہ کی ایٹمی توانائی ایجنسی کے نمائندے اگلے ماہ ایرانی حکام سے ایران کی تنصیبات پر یورینیم کی افزودگی سمیت مختلف امور پر صورت حال واضح کرنے پر بات چیت کریں گے۔

آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گراسی کہتے ہیں کہ ان کی کوشش ہو گی کہ تہران میں ہونے والی اس ملاقات میں ان خطوط اور پیغامات کے تبادلوں کے متعلق ایرانی حکام سے براہ راست بات چیت کی جائے، جن کے جوابات ابھی تک نہیں ملے۔

انہوں نے کہا کہ اس ملاقات کا مقصد شفاف انداز میں باتوں کو سمجھنا ہے تاکہ جون میں آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ میں اس سلسلے میں ایک رپورٹ پیش کی جائے۔

گروسی کے مطابق اگر خیر سگالی سے بات ہوتی ہے، تو وہ پہلے کے مقابلے میں بہتر حالات میں ہوں گے۔

امریکہ نے ایجنسی کے بورڈ آف گورنر پر واضح کیا ہے کہ ایران کو مکمل طور پر ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ اپنی تنصیبات پر نیوکلیئر مواد کی موجودگی پر پوری طرح تعاون کرنا چاہیے تاکہ اس سلسلے میں سوالات کو حل کیا جا سکے۔

جنیوا میں تعینات امریکی مشن کے سربراہ لوئیس بونو نے کہا ہے کہ اب ایران کے پاس ایک اور موقع ہے کہ وہ ایجنسی کے بورڈ کی اگلی ملاقات سے پہلے ضروری تعاون کو یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اس بات کا بغور جائزہ لے گا کہ آیا ایران ایک تعمیراتی طریقہ کار اپنا کر اس مسئلے پر خاطر خواہ پیش رفت کی راہ ہموار کرتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

ایران جوہری معاہدے کا مستقبل کیا ہے؟

یاد رہے کہ 2015 میں امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی نے ایران سے ایک معاہدہ کیا تھا تاکہ ایران کو ایٹمی اسلحہ بنانے سے روکا جا سکے۔ اس کے بدلے میں ایران پر، جو ایک پر امن ایٹمی پروگرام چلانے کا دعوی کرتا ہے، اس پر پہلے سے عائد پابندیاں نرم کر دی گئی تھیں۔

لیکن 2018 میں امریکہ کے ایران کے ساتھ معاہدے سے الگ ہونے کے بعد ایران نے ایسے اقدامات کیے ہیں جو معاہدے کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان اقدامات میں یورینیم کی ایران کے لیے مقررہ حد سے زیادہ افزودگی بھی شامل ہے۔ ایران نے کہا ہے کہ اس کے اقدامات کو واپس لیا جا سکتا ہے اور اس نے اس ضمن میں امریکہ سے پابندیاں نرم کرنے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔

نومبر 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات میں مو جودہ صدر جو بائیڈن کی کامیابی کے بعد دونوں ممالک نے 2015 کے معاہد ے کی طرف لوٹنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم دونوں اطراف نے ایک دوسرے پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں اقدامات سے پہلے اپنے وعدوں کو پورا کریں۔