فرانسیسی صدر فرانسواں اولاں نے پیر کے روز کہا ہے کہ ٹیکس چوری کرنے والوں کے خلاف چھان بین ہوگی، جنھوں نے ٹیکس بچانے کے لیے بیرن ملک کاروباری اکاؤنٹ کھول رکھے ہیں، جو حقائق اُس وقت سامنے آئے جب عالمی شخصیات کے بارے میں انکشافات ہوئے۔
بین الاقوامی صحافیوں کی ٹیم نے، جو پانامہ کے قانونی ادارے سے تعلق رکھنے والی دستاویزات کے افشا سے متعلق کام سے وابستہ رہے ہیں، چند نتائج شایع کیے ہیں جو حقائق امیر، مشہور اور سیاسی طور پر اثر ر رسوخ کے مالک لوگوں کی بیرون ملک مالی لین دین سے تعلق رکھنے کے علاوہ کچھ ملکوں کے قائدین سے متعلق ہیں۔
اِن دستاویزات کو ’پانامہ پیپرز‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اولاں نے کہا ہے کہ ’’تفتیش کی جائے گی، کیس قائم کیے جائیں اور مقدمات چلیں گے‘‘۔
ایک نامعلوم ذریعے نے تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنشورشئیم (آئی سی آئی جے) کو پانامہ کی ’موساک فونسیکا لا فرم‘ کے ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات فراہم کی ہیں۔ ’آئی سی آئی جے‘ نفعہ نقصان کے بغیر کام کرنے والا ادارہ ہے جو واشنگٹن ڈی سی میں قائم ہے۔
رائٹرز کی ایک اطلاع کے مطابق، حکومت ِبرطانیہ نے پیر کے روز ’پانامہ پیپرز‘ کی نقول طلب کی ہیں، تاکہ وہ اپنے طور پر چھان بین کا آغاز کر سکے۔
رامون فونسیکا، جو پانامہ کے اس ادارے کے بانیوں میں سے ایک ہیں، فرانس کے خبر رساں ادارے، ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ صحافیوں کو اس معلومات کی فراہمی ’’ایک جرم ایک دھوکہ دہی‘‘ ہے۔
فونسیکا کے بقول، ’’نجی راز کا معاملہ ایک بنیادی انسانی حق ہے جس کی اس جدید دور میں دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ ہر شخص کو رازداری میں رہنے کا حق حاصل ہے، چاہے وہ بادشاہ ہو یا فقیر‘‘۔
ضروری نہیں کہ ’آف شور اکاؤنٹس‘ میں پیسے رکھنا کوئی جرم ہو، ہوسکتا ہے کہ قانونی طور پر اس کی اجازت ہو تاکہ بین الاقوامی کاروباری لین دین میں آسانی ہو۔ تاہم، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ بینک، لا فرم اور دیگر بیرون ملک حلقے عموماً قانون کی پاسداری کی ضروریات پوری نہیں کر پاتے، جن سے اس بات کی یقین دہانی ہوتی ہو کہ متعلقہ شخصیات مجرمانہ حرکات، ٹیکس چوری کرنے یا سیاسی بدعنوانی میں ملوث نہیں‘‘۔
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم نے، جس کا تعلق جرمن اخبار ’ڈوئچ سائتون‘ اور 100 سے زائد دیگر اداروں سے ہے، کہا ہے کہ دستاویزات سے اُس نے یہ نتیجا اخذ کیا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھیوں نے بیرون ملک اکاؤنٹس میں دو ارب ڈالر رکھ رکھے ہیں۔
اس حوالے سے لین دین سے متعلق صحافیوں کے سوال پر اس ہفتے کریملن نے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا، جب کہ اُس نے گروپ پر روسی صدر اور اُن کے قریبی حلقے کے ساتھیوں کے خلاف بے بنیاد اطلاعات پر مبنی حملہ قرار دیا۔
میونخ میں قائم ’ڈوئچ سائتون‘ نے اتوار کو بتایا کہ اُسے ایک نامعلوم ذریعے سے ایک برس قبل اطلاع موصول ہوئی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ معلومات اُس سے کئی گُنا زیادہ ہے جسے سنہ 2010 میں وکی لیکس نے امریکی سفارتی مراسلوں پر مبنی رپورٹ پر مبنی انکشافات کی صورت میں جاری کیا تھا؛ یا پھر وہ خفیہ دستاویزات جو سنہ 2013میں ایڈورڈ سنوڈن نے صحافیوں کو افشاع کیے تھے۔
آسٹریلیا کے ٹیکس دفتر نے پیر کے دِن رائٹرز کو بتایا کہ ٹیکس چوری کے شبے میں وہ اپنے 800 سے زیادہ امیر ترین افراد کے بارے میں چھان بین کرے گا۔
پیوٹن سے متعلق انکشافات کے علاوہ، ’آئی سی آئی جے‘ کی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے 140 سیاست داں یا سرکاری عہدے داروں کے بھی آف شور اکاؤنٹس ہیں، جن میں سے 12 موجودہ اور سابقہ عالمی رہنما بھی شامل ہیں۔
اِن میں آئس لینڈ اور پاکستان کے وزرائے اعظم، یوکرین اور ارجنٹینا کے صدور اور سعودی عرب کے فرمانروا شامل ہیں۔
اس میں کم از کم 33 افراد اور کمپنیاں بھی شامل ہیں جن کو امریکی حکومت پہلے ہی بلیک لسٹ کر چکی ہے، چونکہ اُن پر غلط کاری کے حربوں کا الزام ثابت ہو چکا ہے؛ جن میں وہ کاروباری ادارے بھی شامل ہیں جو میکسیکو کےمنشیات کے اسمگلر، حزب اللہ جیسی دہشت گرد تنظیموں، یا شمالی کوریا اور ایران جیسے بدنام ملک شامل ہیں۔