انسپیکٹر جنرل سندھ پولیس، اے ڈی خواجہ اور سندھ کی چند با اثر کاروباری شخصیات کے درمیان مبینہ طور پر تنازعات شدت اختیار کرگئے، جس کی بنا پر اے ڈی خواجہ رخصت پر چلے گئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق، گزشتہ ماہ بھی آئی جی سندھ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن، وزیر اعلیٰ سندھ اور وفاق کی عدم رضامندی کی وجہ سے اس پر عمل نہ ہوسکا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ آئی جی سندھ، اے ڈی خواجہ اور سندھ کی با اثر خاتون شخصیت کے درمیان اختلافات بدین کے علاقے میں گنے کے کاشتکاروں کو پولیس کی مدد سے ہراساں کرنے اور آئی جی سندھ کی جانب سے سندھ پولیس کو سیاسی بنیادوں پر استعمال ہونے سے روکنے پر سامنے آئے تھے۔
آئی جی سندھ نے اپنے عہدے پر 10 ماہ تک کام کیا اور اس دوران پولیس کی کارکردگی میں خاصی بہتری دیکھی گئی، جس کا ثبوت سال 2016ء کی رپورٹ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، گزشتہ دو سالوں کی نسبت رواں سال شہر کراچی میں قتل کی وارداتوں، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔
آئی جی سندھ کے رخصت پر جانے کے بعد، اب اس عہدے کے لئے نئے ناموں پر غور کیا جا رہا ہے، جس میں سردار عبدالمجید دستی، مشتاق مہر اور عبدالقادر تھیبو کے نام شامل ہیں۔
فی الحال، ایڈیشنل آئی جی سندھ مشتاق مہر کو آئی جی سندھ کا اضافی چارج بھی سونپ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اے ڈی خواجہ کے رخصت پر جانے کے بعد اب سندھ پولیس میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
اے ڈی خواجہ کی رخصت کے معاملے پر مشیر اطلاعات سندھ، مولا بخش چانڈیو نے نجی ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’آئی جی سندھ اچھے افسر ہیں، اور ان جیسے اچھے افسروں کو آرام کا موقع بھی ملنا چاہیئے۔ تبادلے کا مطلب سزا نہیں ہوتا۔‘‘