انسپکٹر جنرل پولیس سندھ، ڈاکٹر کلیم امام کی خدمات وفاق کے سپرد کرنے پر صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی کے بعد صوبائی مشیر اطلاعات بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے بھی پریس کانفرنس کر کے صوبائی حکومت کے اس اقدام کو درست قرار دیا ہے۔ مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ یہ ’’یک طرفہ فیصلہ‘‘ نہیں ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ آئی جی سندھ پولیس کی کارکردگی پر وزیر اعلیٰ نے وزیر اعظم ہاؤس اور وزیر اعظم عمران خان کو بھی اعتماد میں لیا تھا اور اس مسئلے پر دونوں رہنماؤں میں اتفاق رائے بھی پایا گیا تھا۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ آئی جی سندھ کو ہٹانے کے لئے صوبائی حکومت نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کئے، جس کے لئے، ان کے بقول، ’’ٹھوس وجوہات موجود تھیں‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس کو مکمل آپریشنل آزادی دینے کے باوجود بھی جرائم کی سرکوبی میں پولیس کا فعال کردار نظر نہیں آتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو متعدد مواقع دیے گئے کہ وہ اپنے خلاف موجود تحفظات کو دور کر سکیں۔ لیکن، اس کے باوجود، انسپکٹر جنرل سندھ ڈاکٹر کلیم امام کارکردگی کو بہتر نہ بنا سکے۔
حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ صوبے میں تعینات تمام افسران سندھ پولیس کی سفارش پر ہی وزیر اعلیٰ سندھ نے مقرر کئے مگر اس کے باوجود جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا۔ کراچی میں اغوا برائے تاوان کے کئی کیسز حل نہ ہو سکے، پولیس کی ترجیحات افسران کے ذاتی گھر ٹھیک کرانا رہی۔ لیکن، تھانوں کی حالت نہ بدلی جا سکی، جب کہ سندھ حکومت کو بائی پاس کرتے ہوئے سفارت خانوں اور قونصل خانوں سے براہ راست روابط رکھے جاتے رہے۔ اسی طرح، صوبائی حکومت کی جانب سے اس بات پر بھی اعتراض کیا جاتا رہا کہ آئی جی سندھ سمیت متعدد افسران میڈیا سے گفتگو کرتے تھے جو کسی اور صوبے میں کم دیکھنے کو ملتا ہے۔
پولیس کے صوبائی حکومت سے متعلق کیا تحفظات ہیں؟
آئی جی سندھ پولیس یا ان کے ترجمان کی جانب سے ان الزامات پر کوئی براہ راست جواب اب تک سامنے نہیں آیا۔ لیکن، وائس آف امریکہ کو ملنے والی کئی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام تر حکومتی دعوے درست نہیں۔ پولیس کی جانب سے تیار شدہ معلومات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ 16 ماہ کے دوران ایف آئی آر کے اندراج میں 23 فیصد اضافہ، جب کہ اسٹریٹ کرائمز کی شرح میں 7 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ اس دوران 2 ہزار سے زائد نئے پولیس اہل کار بھرتی کئے گئے ساڑھے پانچ ہزار سے زائد پولیس افسران اور اہل کاروں کو ترقیاں بھی دی گئیں، جب کہ پولیس اہل کاروں کے ویلفئیر کو ترجیحی بنیادوں پر فعال کیا گیا جس سے پولیس کا مورال بہتر بنانے میں بھی مدد ملی۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2018-19 کے دوران پولیس کو جاری شدہ بجٹ میں 5 ہزار 718 ملین روپے کم جاری کئے گئےجو منظور شدہ بجٹ کا تقریباً 30 فیصد بنتا ہے، جس سے پولیس کے کئی منصوبے اور اسکیمیں تعطل کا شکار ہوئیں جب کہ 48 اسکیمیں ایسی بھی ہیں جن کی منظوری اب تک نہیں مل سکی۔ حکومت کی جانب سے کئی تھانوں کے لئے عمارتیں فراہم نہیں کی جا سکیں، جب کہ گذشتہ ایک سال کے دوران پولیس کے لئے ہتھیاروں اور گاڑیوں کی خریداری کے لئے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا گیا۔ اسی طرح صوبائی دارالحکومت کراچی کو سیف سٹی بنانے کا منصوبہ بھی حکومت سندھ کی جانب سے بدستور تاخیر کا شکار ہے۔
صوبائی حکومت کئی پولیس افسران کے خلاف ضابطے کی کارروائی نہ کر سکی:
پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ’’آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے اپنے دور میں سندھ پولیس کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ایک درجن پولیس افسران کو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، قوانین کو توڑنے اور دیگر وجوہات پر اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کرنے کے لئے صوبائی حکومت کو خطوط ارسال کئے، لیکن کسی ایک بھی افسر کے خلاف محکمانہ کارروائی کا آغاز نہیں کیا جا سکا۔ کئی افسران کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی بھی سفارش کی گئی جسےصوبائی حکومت کی جانب سے خاطر میں نہ لایا گیا‘‘۔
صوبائی وزیر توانائی کے خلاف جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کا الزام:
آئی جی سندھ اور حکومت سندھ کے درمیان جاری سرد جنگ میں اختلافات کی ایک اور وجہ صوبائی وزیر توانائی امتیاز شیخ بتائے جاتے ہیں۔ پولیس کی ایک خفیہ رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ ’’صوبائی وزیر امتیاز شیخ سندھ کے ضلع شکارپور میں جرائم پیشہ عناصر کی کھلم کھلا سرپرستی کرتے ہیں اور وہ اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے کرمینل ونگ کا استعمال کرتے ہیں‘‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’امتیاز شیخ نے جرائم پیشہ افراد کے ذریعے سیاسی مخالف شاہ نواز بروہی کے بیٹے کو قتل کروایا جب کہ صوبائی وزیر ضلع ایس ایس پی سے اہم عہدوں پر من پسند پولیس افسران تعینات کروائے جو جرائم پیشہ افراد کو پولیس آپریشن شروع ہونے سے قبل خبردار کرتے، جس کی وجہ سے پولیس کو جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا‘‘۔
ادھر امتیاز شیخ نے اپنے اوپر عائد تمام الزامات کو ’’مکمل طور پر بے بنیاد اور غلط‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ رپورٹ ان کی ساکھ خراب کرنے کے لئے جاری کی گئی ہے‘‘۔
رکن اسمبلی کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج:
واضح رہے کہ اس سے قبل عمر کوٹ میں تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ پر مبینہ حملے پر عدالتی حکم پر پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی نواب تیمور تالپور اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے، جب کہ اسی طرح نواب تیمور تالپور کے قریبی ساتھیوں کی جانب سے ان پر حملے اور مبینہ اغوا کی ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی تھی۔ کئی تجزیہ کاروں کے مطابق، اپنے خلاف مقدمہ درج ہونے پر نواب تیمور تالپور آئی جی سندھ کو عہدے سے ہٹوانا چاہتے تھے۔ تاہم، پیپلز پارٹی قیادت اس سے انکار کرتی آئی ہے۔
کیا پولیس واقعی سفارتی عملے سے براہ راست رابطے میں ہے؟
سندھ پولیس پر صوبائی مشیر اطلاعات نے الزام عائد کیا ہے کہ صوبائی پولیس حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر سفارت خانوں اور قونصل خانوں سے براہ راست خط و کتابت میں مصروف رہتی ہے جو حکومتی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ لیکن پولیس ذرائع کچھ اور دعوٰی کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکہ میں 9/11 کے حملوں کے بعد پاکستان کی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے 15 اداروں کے 18ہزار سے زائد اہل کار اور افسران تربیت لے چکے ہیں۔ طریقہ کار کے مطابق، حال ہی میں امریکہ اور سری لنکا سے تربیت کے لئے پانچ افسران جن میں خواتین پولیس افسران بھی شامل تھیں، ان کے نام منظوری کے لئے محکمہ پولیس نے چیف سیکرٹری کو دیے۔ لیکن، اس پر کوئی احکامات جاری ہی نہ کئے گئے جس کی وجہ سے یہ افسران ان کورسز پر نہ جا سکے۔
اسی طرح کراچی میں واقع قونصل خانوں اور سفارتی عملے کی سیکیورٹی کے لئے پولیس براہ راست قونصل خانوں سے ہی رابطے میں رہتی ہے، جب کہ چین کے قونصل خانے کے حملے کے بعد چینی قونصل جنرل نے پولیس کو فرانزک آلات اور دیگر دینے کی پیشکش کی تھی۔ برطانوی اور امریکی قونصل جنرلز کی جانب سے پولیس کو وقتاً فوقتاً معاونت فراہم کی جاتی رہی ہے۔ بقول پولیس، یہ صرف تکنیکی اور پیشہ وارانہ معاونت تک محدود رہی ہے، جس کی تفصیلات، بقول پولیس ذرائع، صوبائی حکام سے شئیر کی جاتی ہے۔