بائیڈن کے دورے سے قبل اسرائیلی اور فلسطینی سربراہوں کے درمیان 5 سال بعد پہلا رابطہ

فلسطینی صدر محمود عباس(فائل فوٹو: اے پی)

(ویب ڈیسک)امریکی صدر جو بائیڈن کے مشرق وسطی کے دورہ سے کچھ دن پہلے، جمعہ کے روز فلسطینی صدر محمود عباس اور اسرائیل کے نگراں وزیراعظم یائر لیپڈ ن کے درمیان غیر معمولی ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔ دونوں ملکوں کے رہنماوں کے درمیان تقریبا 5 سال کے بعد پہلی مرتبہ بات چیت ہوئی ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسے ایک اہم سیاسی پیش رفت کہا جا سکتا ہے، تاہم ا س کے بعد طویل عرصے سے تعطل کا شکار امن مذاکرات کی بحالی کے کچھ زیادہ امکانات نظر نہیں آتے۔

اسرائیل کے نگراں وزیراعظم یائر لیپڈ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

جمعہ کو اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ اور وزیر اعظم یائر لیپیڈ نے ٹیلی فون پر فلسطینی صدرعباس سے الگ الگ بات چیت کی ۔ اس سے پہلے جمعرات کو مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں محمود عباس اور اسرائیلی وزیر دفاع بینی گانٹز کے درمیان بالمشافعہ ملاقات بھی ہوئی تھی۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے محمود عباس کے ساتھ بات چیت کے دوران مسلسل تعاون اور امن کو یقینی بنانے کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا۔

اسرائیل میں یکم نومبر کو ہونے والے انتخابات سے قبل ،گزشتہ ہفتے لیپڈ نے نگراں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تھا جس کے بعد دونوں رہنماوں کے درمیان یہ پہلی فون کال تھی ۔

فلسطینی سرکاری خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق، محمود عباس نے رام اللہ میں اپنے صدارتی ہیڈکوارٹر میں اسرائیلی وزیر دفاع بینی گانٹز کا استقبال کیا اور اس ملاقات میں فلسطینی صدر نے اپنے امریکی ہم منصب جوبائیڈن کے دورے سے قبل اسرائیل فلسطین تنازع کو حل کرنے اور پرسکون رہنے کے لیے سیاسی ماحول بنانے کی اہمیت" پر زور دیا۔

اسرائیلی وزیر دفاع بینی گانٹز (فائل فوٹو: اے ایف پی)

گانٹز نےاپنے ایک ٹوئٹ میں اس ملاقات کے حوالے سے لکھا کہ جمعرات کی ملاقات ،مثبت رہی اور دونوں رہنماوں نے خطے میں امن قائم رکھنے اور ایسے اقدامات سے گریز پر اتفاق کیا جس سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہو۔

صدر جو بائیڈن 13 سے 16 جولائی کے دوران مشرق وسطی کا دورہ کر رہے ہیں۔

ایک سینیئر فلسطینی عہدیدار حسین الشیخ نے ایک ٹویٹ میں کہاہے کہ صدر عباس نے بائیڈن کے دورے سے پہلے ماحول پر امن رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا، جس کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں۔

عباس اور گانٹز کے درمیان گزشتہ سال اگست کے بعد سے یہ تیسری ملاقات تھی۔

فلسطینی عسکریت پسند گروپ اسلامی جہاد نے ایک بیان میں جمعرات کےروز ہونے والی اس ملاقات کی مذمت کی کرتے ہوئے کہا تھا کہ مواصلاتی رابطوں اور سیکورٹی میٹنگز پر اصرار، دشمن (اسرائیل) کے مفادات اور منصوبوں کو پورا کرتا ہے اور اسے جارحیت کی اس مشق کے لیے کھلی چھٹی دیتا ہے، جس کا نشانہ ہمارے لوگ روز انہ بنتے ہیں۔

11مئی کو مغربی کنارے کے شہر جنین میں اسرائیلی فوج کے ایک چھاپے کے دوران فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیریں ابو عاقلہ کی ہلاکت کے بعد اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی مزید شدت اختیار کر گئی تھی۔

SEE ALSO:

شیرین ابو عاقلہ کا جنازہ،اسرائیلی فورسز سے جھڑپوں پر فلسطینی مزید برہم

فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ابوعاقلہ کو ایک اسرائیلی فوجی نے جان بوجھ کر گولی ماری، جبکہ اسرائیل اس کی تردید کرتا آیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے پیر کو کہا تھا کہ ابو عاقلہ ممکنہ طور پر اسرائیلی جانب سے گولی لگنے سے ماری گئی لیکن یہ شاید غیر ارادی عمل تھا ۔

فلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے کے کچھ حصوں میں محدود خود مختاری رکھتی ہے۔ اسرائیل کے زیر قبضہ علاقے میں فلسطینی ریاست کے قیام کے مقصد سے امریکی ثالثی میں ہونے والی بات چیت 2014، میں ختم ہو گئی تھی اور اسکی بحالی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ۔

(اس خبر کا مواد رائٹرز سے لیا گیا)