وائٹ ہاوس نے منگل کے روز بتایا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن جلد ہی اسرائیل، مغربی کنارے اور سعودی عرب کا اپنی صدارتی مدت کے دوران پہلا دورہ کریں گے۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ ایک ایسا دورہ ہے جو امریکہ کے لیے اہم مگر پیچیدگیوں کے شکار خطے میں اسرائیل کے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے نازک عمل کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ کے لیے انیتا پاؤل کی رپورٹ کے مطابق، چار روزہ دورہ جولائی کے وسط میں اسرائیل سےشروع ہو رہا ہے جہاں بائیڈن اسرائیلی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ وہ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مذاکرات بھی کریں گے تاکہ اختلاف رکھنے والے فریقوں کے سامنے دو ریاستی حل کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کریں گے۔
اسرائیل کے بعد بائیڈن سعودی شہر جدہ جائیں گے۔ اس شہر کو،مسلمانوں کے لیے دو مقدس ترین مقامات، مکہ اور مدینہ کے دروازے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ابھی تک سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور یہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 2017 کی ریاض سے تل ابیب کی تاریخی پرواز کے بعد، کسی امریکی صدر کی اسرائیل سے کسی ایسے عرب ملک کے لیے پہلی براہ راست پرواز ہوگی جو اس ملک کو تسلیم نہیں کرتا۔
صدر بائیڈن تیل سے مالا مال مملکت کے جن رہنماؤں سے جدہ میں ملاقات کریں گے ان میں ان کے ہم منصب، ضعیف بادشاہ اور ولی عہد شامل ہیں ۔ولی عہد کو پالیسی سازی میں کلیدی حیثیت حاصل ہے اور جن کو سعودی عرب کا مطلق حکمران سمجھا جاتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرین جین پیرزنے کہا کہ صدر بائیڈن اس دورے میں سعودی میزبان شاہ سلمان کے علاوہ ایک درجن سے زائد رہنماؤں سے ملیں گے جن میں خلیجی تعاون کونسل کے علاوہ مصر، عراق اور اردن کی قیادت بھی شامل ہے۔ "
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں پالیسی کے نائب صدر برائن کیٹولس نے کہا کہ بائیڈن کی ملاقاتوں کا کچھ اثر ہو سکتا ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ "میرے خیال میں اہم بات یہ دیکھنا ہے کہ صدر بائیڈن اور ان کی ٹیم کے ارکان کس طرح امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور پھر دیگر اہم عرب ممالک کے ساتھ اپنی سفارتی رسائی کو وسیع کرتے ہیں"۔"
کٹولس نے مزید کہا کہ واشنگٹن اسرائیل کے عرب دنیا کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے’ ابراہام ایکارڈ نامی معاہدے ‘ کو وسعت دینے کے لیے خاموش سفارت کاری میں مصروف ہے۔ بالآخر، اسرائیل اور سعودی عرب تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ پر گامزن ہیں، لیکن بائیڈن کے اس دورے کے دوران اس کے باقاعدہ اعلان کے کم ہی امکانات ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کا تقاضا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے قبل اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات میں با معنی پیش رفت ہونی چاہیے۔
ادھر نیوز ویب ’ ایگزی اوس‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے وزیر خارجہ یائر لیپڈ نے ایک بریفنگ میں کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن کا مشرق وسطی کا دورہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان گرم جوش تعلقات کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
تاہم اسرائیلی وزیرخارجہ نے کہا کہ یہ تعلقات ایک بڑی جست میں استوار نہیں ہوں گے بلکہ چھوٹے چھوٹے قدموں کی صورت آگے بڑھیں گے۔
گزشتہ ہفتے وائس آف امریکہ نے صدر جو بائیڈن سے ایک بریفنگ کے دوران سوال کیا تھا کہ آیا اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے وہ کوئی کردار ادا کریں گے۔ تو اس بارے میں انہوں نے مختصر جواب میں کہا ’’ ہم دیکھیں گے‘‘۔
جمال خاشقجی کا قتل
سنٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں مشرق وسطیٰ کے پروگرام کے ڈائریکٹر جون الٹرمین نے کہا کہ سعودیوں کے ساتھ بائیڈن کی ملاقاتیں ، ولی عہد محمد بن سلمان کے اپنے سب سے بڑے ناقد جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے بھی بھرپور اہمیت رکھتی ہیں۔ بائیڈن نے اپنی صدارتی مہم کے دوران، استنبول میں سعودی قونصل خانے میں خشوگجی کے 2018 کے قتل پر سعودی قیات کو اس حوالے سے "قیمت ادا کرنے، اور درحقیقت انہیں نا پسندیدہ بنانے کا وعدہ کیا تھا"۔
الٹرمین نے زوم کے ذریعے وائس آف امریکہ کو بتایا:
’’لیکن یہ سعودی عرب کے ساتھ امریکی حکومت کے تعلقات کی مکمل حیثیت نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے تعلقات ایسی حکومتوں کے ساتھ بھی ہیں جو اپنے لاکھوں شہریوں کے ساتھ خوفناک سلوک کرتی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ’’جمال خشوگجی کے ہولناک قتل اور قتل عام سے پریشان تھے۔‘‘ آلٹرمین کے بقول وہ ذاتی طور پر خاشقجی کو جانتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بطور حکومت کے ہمیں سوچنا چاہیے کہ وسیع تر منظر نامے میں یہ ملاقات اس سیاق و سباق میں کیسے فٹ بیٹھتی ہے۔
سینیٹ کی سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس کے ایک سینئر ڈیموکریٹ رکن، سین رون وائیڈن نے بائیڈن پر زور دیا کہ وہ خشوگجی کے قتل کے ذمہ داروں کے ساتھ ساتھ "پورٹ لینڈ کے فالن اسمارٹ کے قتل اور سعودی شہریوں کے ہاتھوں دیگر متاثرین کے لیے جوابدہی پر زور دیں جو امریکی انصاف سے بچنے کے لیے بھاگ گئے تھے۔ پندرہ سالہ سمارٹ کو 2016 میں 20 سالہ سعودی طالب علم عبدالرحمان سمیر نورا نے قتل کر دیا تھا، جو کہ ایک سعودی شہری ہے۔ عبدالرحمن پاسپورٹ ضبط ہونے کے باوجود سعودی عرب فرار ہو گیا تھا۔
(اس رپورٹ کے لیے وی او اے سے پیٹس وداکساوارا نے بھی مواد فراہم کیا)