وفد گزشتہ چند ماہ میں کی گئی معاشی اصلاحات کا جائزہ لے گا۔ پاکستان کے لیے حال ہی میں منظور کیے گئے 6.7 ارب ڈالر مالیت کے قرض کی مرحلہ وار ادائیگی سہ ماہی جائزوں سے مشروط ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ کا ایک وفد پیر کو پاکستان پہنچ گیا، جہاں وہ حال ہی میں کی گئی معاشی اصلاحات کا جائزہ لے گا۔
پاکستان کی معیشت کو گزشتہ کئی برسوں سے سنگین مسائل کا سامنا ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ حال ہی میں طے پانے والے 6.7 ارب ڈالر مالیت کے قرض کے معاہدے نے ملک کو نادہندگی کے ممکنہ خطرے سے محفوظ رکھا۔
قرض کی رقم آئندہ تین برسوں میں اقساط کی صورت میں دی جائے گی اور یہ آئی ایم ایف کی جانب سے سہ ماہی جائزوں سے مشروط ہوگی۔
پاکستان پہنچنے والے آئی ایم ایف کے وفد کی سرگرمیوں کے بارے میں فی الوقت کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے، تاہم سرکاری ذرائع کے مطابق اس کے اراکین وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔
حکمران مسلم لیگ (ن) ملکی معیشت کی بحالی کے لیے مشکل فیصلے کرنے کے عزم کا اعادہ کرتی آئی ہے جس میں مالی خسارے میں کمی کی غرض سے بجلی، قدرتی گیس اور دیگر سہولتوں پر صارفین کو دی جانی والی رعایت میں کمی اور خسارے کا سامنا کرنے والے سرکاری محکموں کی نجکاری کا عمل بھی شامل ہے۔
اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے معاشی اصلاحات کی طرف پیش رفت تو کی ہے مگر شائد یہ ’’اطمینان بخش‘‘ تصور نا کی جائے۔
پاکستان میں دیرپا ترقی سے متعلق غیر سرکاری تنظیم سسٹینیبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عابد سلہری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو طے شدہ اہداف کے حصول میں تاخیر کا سامنا ہے۔
’’اب حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف کے وفد کو قائل کرنا ہوگا کہ جو تاخیر ہوئی اس کی وجوہات کیا تھیں اور حکومت کو اپنا سیاسی عزم بھی ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اقتصادی اصلاحات پر عمل پیرا رہے گی۔‘‘
عابد سلہری کے بقول معیشت کی بحالی کے لیے درکار طویل المدت اقدامات کی طرف پیش رفت میں حکومت بظاہر کمزور دیکھائی دیتی ہے۔
’’جن اصلاحات کا تعلق براہ راست عوام سے تھا اُن پر تو حکومت نے عمل درآمد کر دیا لیکن محصولات میں اضافہ اور خسارے پر قابو پانا ایسی دو چیزیں ہیں جس کے لیے کوئی ’شارٹ کٹ‘ نہیں ہے۔ جب تک قانون سب کے لیے برابر نا ہو تو اہداف کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔ تو شائد اس معاملے پر حکومت کو معذرت خواہانہ انداز اپنانا پڑے۔‘‘
بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور امداد فراہم کرنے والے دوست ممالک طویل عرصے سے پاکستان پر زور دیتے آئے ہیں کہ ٹیکس اصلاحات کی مدد سے بجٹ خسارے کو کم کیا جائے۔
سرکاری عہدیدار کہتے ہیں کہ حکومت ٹیکس وصولی کے نظام میں بہتری لا رہی ہے جب کہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نج کاری کے عمل پر بھی کام جاری ہے۔
پاکستان کی معیشت کو گزشتہ کئی برسوں سے سنگین مسائل کا سامنا ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ حال ہی میں طے پانے والے 6.7 ارب ڈالر مالیت کے قرض کے معاہدے نے ملک کو نادہندگی کے ممکنہ خطرے سے محفوظ رکھا۔
قرض کی رقم آئندہ تین برسوں میں اقساط کی صورت میں دی جائے گی اور یہ آئی ایم ایف کی جانب سے سہ ماہی جائزوں سے مشروط ہوگی۔
پاکستان پہنچنے والے آئی ایم ایف کے وفد کی سرگرمیوں کے بارے میں فی الوقت کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے، تاہم سرکاری ذرائع کے مطابق اس کے اراکین وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔
حکمران مسلم لیگ (ن) ملکی معیشت کی بحالی کے لیے مشکل فیصلے کرنے کے عزم کا اعادہ کرتی آئی ہے جس میں مالی خسارے میں کمی کی غرض سے بجلی، قدرتی گیس اور دیگر سہولتوں پر صارفین کو دی جانی والی رعایت میں کمی اور خسارے کا سامنا کرنے والے سرکاری محکموں کی نجکاری کا عمل بھی شامل ہے۔
اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے معاشی اصلاحات کی طرف پیش رفت تو کی ہے مگر شائد یہ ’’اطمینان بخش‘‘ تصور نا کی جائے۔
پاکستان میں دیرپا ترقی سے متعلق غیر سرکاری تنظیم سسٹینیبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عابد سلہری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو طے شدہ اہداف کے حصول میں تاخیر کا سامنا ہے۔
’’اب حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف کے وفد کو قائل کرنا ہوگا کہ جو تاخیر ہوئی اس کی وجوہات کیا تھیں اور حکومت کو اپنا سیاسی عزم بھی ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اقتصادی اصلاحات پر عمل پیرا رہے گی۔‘‘
عابد سلہری کے بقول معیشت کی بحالی کے لیے درکار طویل المدت اقدامات کی طرف پیش رفت میں حکومت بظاہر کمزور دیکھائی دیتی ہے۔
’’جن اصلاحات کا تعلق براہ راست عوام سے تھا اُن پر تو حکومت نے عمل درآمد کر دیا لیکن محصولات میں اضافہ اور خسارے پر قابو پانا ایسی دو چیزیں ہیں جس کے لیے کوئی ’شارٹ کٹ‘ نہیں ہے۔ جب تک قانون سب کے لیے برابر نا ہو تو اہداف کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔ تو شائد اس معاملے پر حکومت کو معذرت خواہانہ انداز اپنانا پڑے۔‘‘
بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور امداد فراہم کرنے والے دوست ممالک طویل عرصے سے پاکستان پر زور دیتے آئے ہیں کہ ٹیکس اصلاحات کی مدد سے بجٹ خسارے کو کم کیا جائے۔
سرکاری عہدیدار کہتے ہیں کہ حکومت ٹیکس وصولی کے نظام میں بہتری لا رہی ہے جب کہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نج کاری کے عمل پر بھی کام جاری ہے۔