واشنگٹن —
پاکستان کے وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سابق اور نگران حکومت نے آئی ایم ایف سے فنڈز تو لے لیے، لیکن آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد نہیں کیا اور اس کا سیاسی خمیازہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو بھگتنا پڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ طے شدہ شرائط کے مطابق، گزشتہ 18 مہینوں کے دوران، ہر سہ ماہی میں توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہوتا، تو مسلم لیگ ن کی حکومت کو یک دم اتنا اضافہ نہ کرنا پڑتا اور نہ ہی عوام کو ایک ساتھ اتنا بوجھ محسوس ہوتا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ گھریلو صارفین کو ابھی بھی دو تہائی سبسڈی یا رعایت دی جا رہی ہے اور اسے کم کرنا مناسب نہ ہو گا، کیونکہ عام لوگ اس سے زیادہ بل دینے کی سکت نہیں رکھتے۔
وزیرِ خزانہ عالمی بینک کی سالانہ میٹنگز میں پاکستان کی نمائندگی کرنے اور آئی ایم ایف سے قرض کی دوسری قسط وصول کرنے سے پہلےطے شدہ شرائط پر عمل درآمد کے بارے میں بریفنگ دینے کے لیے واشنگٹن آئے ہیں۔
ملک میں محصولات کو بڑھانے کے لیے ضروری اقدامات اور چھوٹے کاروباروں کو ایف بی آر کے ڈیٹا بیس میں شامل کرنے کے بارے میں سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ جب تک ہم ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو 8.5 سے 14 یا 15 فیصد تک نہیں لاتے، تب تک ہم صحیح سمت میں نہیں جا رہے، کیونکہ اس کے لیے 1500 ارب روپے کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ صرف گذشتہ سال کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے پاکستان نے 2000 ارب کا قرض لیا تھا، جبکہ 1947 سے 1990 کی دہائی تک پاکستان کے کل قرضے 3000 ارب تھے جو اب 14000 ارب تک پہنچ چکے ہیں۔
وزیرِ خزانہ نے کہا کہ ملک میں بجلی کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی پیداوار خام تیل کے بجائے سستے طریقوں سے کی جائے۔
اس سلسلے میں ملک کا پہلا ونڈ پاور پراجیکٹ کام کر رہا ہے اور 56 میگاواٹ بجلی مہیا کر رہا ہے، جبکہ 50 میگا واٹ کا ایک پراجیکٹ امریکی ادارے (OPIC) یعنی اوورسیز پراجیکٹ اینوسٹمنٹ کارپوریشن کے تعاون سے جھمپیر میں لگایا جا رہا ہے۔
لیکن، ملک میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔
کالا باغ ڈیم منصوبے پر ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث پاکستان کا دھیان اب دیامیر، بھاشا اور داسو ڈیم منصوبے پر ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کی کوشش ہے کہ ان دونوں منصوبوں کے لیے فنڈز مل جائیں، لیکن اگر داسو اور بھاشا میں سے کسی ایک منصوبے کے لیے فنڈنگ ملے تو وہ دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے ہو۔ کیونکہ، داسو اور بھاشا تقریباً ایک جتنی بجلی پیدا کریں گے۔ مگر بھاشا ڈیم سے پاکستان کی پانی کی ضروریات بھی پوری ہوں گی ،کیونکہ بھاشا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجاش زیادہ ہے۔
پاکستان ورلڈ بینک کے ساتھ داسو ڈیم کے منصوبے کو حتمی شکل دے چکا ہے۔ کیونکہ یہ منصوبہ اگلے 9 سے 10 مہینے میں شروع ہونے کی توقع ہے، جبکہ دیامیر بھاشا کی سٹڈی کے لیے ابھی مزید دو سال لگیں گے جس کے لیے امریکی کانگریس فنڈنگ کی منظوری دے چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ طے شدہ شرائط کے مطابق، گزشتہ 18 مہینوں کے دوران، ہر سہ ماہی میں توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہوتا، تو مسلم لیگ ن کی حکومت کو یک دم اتنا اضافہ نہ کرنا پڑتا اور نہ ہی عوام کو ایک ساتھ اتنا بوجھ محسوس ہوتا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ گھریلو صارفین کو ابھی بھی دو تہائی سبسڈی یا رعایت دی جا رہی ہے اور اسے کم کرنا مناسب نہ ہو گا، کیونکہ عام لوگ اس سے زیادہ بل دینے کی سکت نہیں رکھتے۔
وزیرِ خزانہ عالمی بینک کی سالانہ میٹنگز میں پاکستان کی نمائندگی کرنے اور آئی ایم ایف سے قرض کی دوسری قسط وصول کرنے سے پہلےطے شدہ شرائط پر عمل درآمد کے بارے میں بریفنگ دینے کے لیے واشنگٹن آئے ہیں۔
ملک میں محصولات کو بڑھانے کے لیے ضروری اقدامات اور چھوٹے کاروباروں کو ایف بی آر کے ڈیٹا بیس میں شامل کرنے کے بارے میں سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ جب تک ہم ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو 8.5 سے 14 یا 15 فیصد تک نہیں لاتے، تب تک ہم صحیح سمت میں نہیں جا رہے، کیونکہ اس کے لیے 1500 ارب روپے کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ صرف گذشتہ سال کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے پاکستان نے 2000 ارب کا قرض لیا تھا، جبکہ 1947 سے 1990 کی دہائی تک پاکستان کے کل قرضے 3000 ارب تھے جو اب 14000 ارب تک پہنچ چکے ہیں۔
وزیرِ خزانہ نے کہا کہ ملک میں بجلی کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی پیداوار خام تیل کے بجائے سستے طریقوں سے کی جائے۔
اس سلسلے میں ملک کا پہلا ونڈ پاور پراجیکٹ کام کر رہا ہے اور 56 میگاواٹ بجلی مہیا کر رہا ہے، جبکہ 50 میگا واٹ کا ایک پراجیکٹ امریکی ادارے (OPIC) یعنی اوورسیز پراجیکٹ اینوسٹمنٹ کارپوریشن کے تعاون سے جھمپیر میں لگایا جا رہا ہے۔
لیکن، ملک میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔
کالا باغ ڈیم منصوبے پر ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث پاکستان کا دھیان اب دیامیر، بھاشا اور داسو ڈیم منصوبے پر ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کی کوشش ہے کہ ان دونوں منصوبوں کے لیے فنڈز مل جائیں، لیکن اگر داسو اور بھاشا میں سے کسی ایک منصوبے کے لیے فنڈنگ ملے تو وہ دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے ہو۔ کیونکہ، داسو اور بھاشا تقریباً ایک جتنی بجلی پیدا کریں گے۔ مگر بھاشا ڈیم سے پاکستان کی پانی کی ضروریات بھی پوری ہوں گی ،کیونکہ بھاشا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجاش زیادہ ہے۔
پاکستان ورلڈ بینک کے ساتھ داسو ڈیم کے منصوبے کو حتمی شکل دے چکا ہے۔ کیونکہ یہ منصوبہ اگلے 9 سے 10 مہینے میں شروع ہونے کی توقع ہے، جبکہ دیامیر بھاشا کی سٹڈی کے لیے ابھی مزید دو سال لگیں گے جس کے لیے امریکی کانگریس فنڈنگ کی منظوری دے چکی ہے۔