حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد 'پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ' میں نیا کیا ہے؟

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے قیام پر سیاسی تجزیہ کار مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ 

پاکستان کی 72 سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو منتخب حکومتوں کے علاوہ فوجی آمریت کے بھی طویل ادوار گزرے ہیں۔ جن کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے مختلف سیاسی تحاریک اور اتحاد تشکیل پاتے رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ساتھ دائیں اور بائیں بازو کی دیگر جماعتوں نے اتحاد کے قیام اعلان کیا جسے 'پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ' (پی ڈی ایم) کا نام دیا گیا۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے قیام پر سیاسی تجزیہ کار مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔

سینئر صحافی اور 'ڈان' لاہور کے مدیر اشعر رحمٰن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس تحریک کا جواز سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کیوں کہ ملک میں انتخابات کے بعد ہی موجودہ حکومت قائم ہوئی۔

اُن کے بقول 'پی ڈی ایم' تحریک اصولوں پر مبنی ہونے سے زیادہ شکست خوردہ سیاسی جماعتوں کی پریشانی کا ثبوت محسوس ہوتی ہے۔

'حزبِ اختلاف کو میثاقِ سیاست کی زیادہ ضرورت ہے'

اشعر رحمٰن کا کہنا تھا کہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو سیاسی طور پر زندہ رہنا ہے جس کے لیے اس تحریک کا اعلان کرنا ناگزیر تھا۔ تحریک میں شامل جماعتوں کے لیے یہ میثاق جمہوریت کا تسلسل ہے، لیکن اس پر تو خود یہ جماعتیں پوری نہیں اتر سکیں۔

البتہ صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ 'اے پی سی' کے بعد اچانک حزبِ اختلاف خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کی فوجی افسران سے خفیہ ملاقاتوں کی خبریں سامنے آنے کے بعد یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ حزبِ اختلاف کو میثاقِ جمہوریت کی نہیں بلکہ میثاقِ سیاست کی زیادہ ضرورت ہے تا کہ اُنہیں پتا ہو کہ ملک کے سیاسی رخ کا تعین کیسے کرنا ہے۔

نیا سیاسی اتحاد کس حد تک مؤثر ہو سکتا ہے؟ اس پر حتمی رائے دینا تو مشکل ہے۔ البتہ مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ اس اتحاد سے موجودہ اپوزیشن جماعتوں کا بیانیہ کمزور پڑ گیا ہے جو انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے 2014 کے دھرنے میں اپنایا تھا، جس کے مطابق جمہوری حکومت کو گرانا آئینی خلاف ورزی ہے۔

ماضی کی اہم سیاسی تحاریک پر ایک نظر

پی ڈی ایم کو ماضی کے سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا جائے تو اس سے پہلے کئی تحاریک سیاست کا رخ بدل چکی ہیں۔

سینئر صحافی سہیل سانگی کے مطابق ماضی کی تین سیاسی تحاریک کو کسی طور پر فراموش نہیں کیا جا سکتا جن کی وجہ سے ملک میں کئی نمایاں سیاسی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔

ان کے بقول دلچسپ بات یہ ہے کہ 1967 میں نواب زادہ نصراللہ نے پانچ پارٹیوں کے الحاق سے ایک تحریک اس وقت کے ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے خلاف شروع کی تھی جس کا ابتدا میں نام 'پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ' ہی تھا، جسے بعد میں تبدیل کر کے 'پاکستان ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی' کا نام دیا گیا۔

سہیل سانگی کے مطابق نواب زارہ نصراللہ کی یہ ایک کامیاب تحریک تھی اور اس میں رکھے گئے مطالبات جن میں ایک شخص کے لیے ایک ووٹ کا حق اور عام انتخابات کا انعقاد چند سال بعد پورے ہو بھی گئے۔

انہوں نے پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1977 میں نو سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک تحریک کا آغاز ہوا جو اس وقت کے منتخب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دائیں بازو کی جماعتوں کا ایک اتحاد تھا۔ اس کے نتیجے میں ملک میں جنرل ضیا کا مارشل لا لگ گیا اور اتحاد منتشر ہو گیا۔

تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ پی این اے کی تحریک اس لیے بھی کامیاب ہوئی کہ الیکشن کے فوری بعد سیاسی کارکن مکمل طور پر متحرک تھے جس کی وجہ سے تحریک نے زور پکڑا جب کہ حالیہ دنوں میں تشکیل کیے گئے اپوزیشن کے اتحاد 'پی ڈی ایم' کے لیے حالات یکسر مختلف ہیں۔

سیاسی تحاریک کی تاریخ پر مزید بات کرتے ہوئے سہیل سانگی کہتے ہیں پی این اے کے بعد قابلِ ذکر سیاسی اتحاد 'موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکرسی' (ایم ار ڈی) ہی تھا۔

سن 1981 میں شروع ہونے والی یہ تحریک بنیادی طور ہر بائیں بازو کی تھی۔ سہیل سانگی کے بقول اس تحریک کی سربراہی پیپلز پارٹی کے پاس تھی۔ تحریک کے پنجاب تک پھیلاؤ اور مقبولیت کے باوجود اس کا محور سندھ ہی تھا۔

البتہ مظہر عباس کئی دہائیوں کے بعد ہونے والے عمران خان کے لانگ مارچ اور 2014 کے دھرنے کو بھی ایک اہم تحریک قرار دیتے ہیں۔

اُن کے بقول، "پی این اے اور پاکستان تحریک انصاف میں فرق ضرور ہے جو اس کے نتائج سے واضح ہوا۔ پی این اے کے نتیجے میں جمہوریت کمزور پڑی اور مارشل لا لگا جب کہ 2014 میں اپوزیشن جماعتوں نے جمہوری ادارے پارلیمنٹ کی بالا دستی کی بات کی اور متحد نظر آئے۔"

موجودہ 'پی ڈی ایم' کا تذکرہ کرتے ہوئے سہیل سانگی کا کہنا تھا اپوزیشن جماعتوں کی اس تحریک کے اعلان کو صرف سیاسی شور شرابا نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ اگر پنجاب کے عوام اور لیڈر وہی کردار ادا کرتے ہیں جو سندھ نے ایم آر ڈی کے دوران کیا تھا تو پی ڈی ایم ایک اہم سیاسی تحریک بن کر ابھر سکتی ہے جس کے نتائج دور رس ہو سکتے ہیں۔

اُن کہا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے خلاف ماضی میں اتحاد بھی بنا چکے ہیں لیکن وہ انتخابی نوعیت کے تھے۔ البتہ اہم بات یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں 2000 میں جنرل مشرف کے مارشل لا کے خلاف بھی متحد ہو چکی ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ منتخب حکومت کیسے غیر جمہوری ہو گئی؟ سہیل سانگی نے کہا کہ کسی بات کا قانونی طور پر درست ہونا اور اس کے بارے میں عوامی رائے دو مختلف چیزیں ہیں۔

ان کے بقول موجودہ سیاسی سیٹ اپ آئینی طور پر درست ہے، لیکن پنجاب جیسے بڑے صوبے میں تحریک انصاف کو قبول نہیں کیا گیا۔ اس لیے آگے چل کر پنجاب ہی موجودہ تحریک کا بھی مرکز ثابت ہو سکتا ہے۔

کیا پی ڈی ایم ایک کامیاب تحریک ثابت ہو سکتی ہے؟

اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم کی کامیابی کے سوال پر مظہر عباس کا کہنا ہے کہ اس کی ناکامی یا کامیابی کا تعین بہت سے عوامل کریں گے۔ جس میں سرِ فہرست اپوزیشن جماعتوں کا اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔

اپوزیشن کی حکومت مخالف آل پارٹیز کانفرنس

وہ بھی سہیل سانگی کی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ اس تحریک کا مرکز نہ وفاق ہے اور نہ ہی تینوں صوبے۔ اس تحریک کا مرکز پنجاب ہے کیونکہ اس تحریک کی لیڈرشپ بڑی حد تک مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے جس کا سیاسی قلعہ پنجاب ہی ہے۔

اشعر رحمان جو کہ 'پی ڈی ایم' کو محض سیاسی شعبدے بازی سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملکی سیاست بہت سی منازل طے کرتے ہوئے یہاں پہنچی ہے۔ اس لیے جمہوریت کو کسی طور اپنے راستے سے بھٹکنا نہیں چاہیے اور موجودہ تحریک بڑی حد تک سیاسی جماعتوں کا صرف ایک ردِ عمل ہے۔

اپوزیشن کے پاس آپشنز کیا ہیں؟

اس پر مظہر عباس کہتے ہیں یا تو حزبِ اختلاف کی جماعتیں وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لے آئیں یا اجتماعی استعفے پیش کر دیں۔ ان کے بقول ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ البتہ یہی دو آپشنز کسی حکومت کو ہٹانے کے جمہوری طریقے ہیں۔

مظہر عباس کا کہنا ہے کہ حکومت کو ہٹانے کے لیے تیسرا راستہ تصادم کا ہے جیسے تحریک انصاف کے دھرنے میں دیکھا گیا مگر وہ نواز شریف کے استعفے کا سبب نہ بن سکا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے پاس کھونے کو کیا ہے؟

سہیل سانگی اس تحریک کے مؤثر ہونے کو مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مقدمات تو لگ بھگ تمام حزبِ اختلاف کی جماعتوں سے وابستہ رہنماؤں کے خلاف چل رہے ہیں۔ البتہ دونوں بڑی جماعتوں میں فرق یہ ہے کہ سندھ حکومت اب بھی پیپلز پارٹی کے پاس ہے، جب کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب سے ہاتھ دھو چکی ہے۔ لہذا جنگ میں ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں۔

ماضی میں چلائی جانے والی سیاسی تحاریک کے اثرات پاکستان کی سیاست پر نمایاں بھی ہیں اور گہرے بھی۔ تجزیہ کار اور صحافی یہی سمجھتے ہیں کہ پی ڈی ایم اس نوعیت کی آخری تحریک بالکل نہیں لیکن یہ طے ہے کہ اس کی کامیابی اور ناکامی دونوں ہی اس بات پر مںحصر ہے کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب کو کس حد تک متحرک کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہے۔