|
اسلام آباد _ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حالیہ فیصلے کے بعد اسپیکر پنجاب اسمبلی نے مخصوص نشستوں پر منتخب 27 اراکین کی رکنیت معطل کر دی ہے۔ اسمبلی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی طرح قومی اسمبلی، خیبر پختونخوا اور سندھ اسمبلی میں بھی خصوصی نشستوں پر منتخب اراکین کی رکنیت کا فیصلہ ہونا ہے۔
سپریم کورٹ نے پیر کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جمعرات کو پنجاب اسمبلی کے معطل ہونے والے اراکین میں مسلم لیگ (ن) کے 23، پاکستان پیپلز پارٹی کے دو، مسلم لیگ (ق) اور استحکامِ پاکستان پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔
اسی طرح قومی اسمبلی کا اجلاس 13 مئی کو طلب کر لیا گیا ہے جس میں خصوصی نشستوں پر کامیاب اراکین کی رکنیت کا فیصلہ ہو گا۔
ماہرین کے مطابق پنجاب اسمبلی کی طرح قومی اسمبلی میں بھی 23 اراکین کی رکنیت معطل ہونا ہے، جن میں مسلم لیگ ن کے 16، پیپلز پارٹی کے پانچ، جے یو آئی ف اور ایم کیو ایم کا ایک ایک رکن شامل ہے۔
واضح رہے کہ آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں انتخابی نشان نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیا تھا اور بعدازاں کامیاب امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تھی۔ آئینِ کے مطابق آزاد امیدواروں کو کسی جماعت میں لازمی شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے۔
SEE ALSO: سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطلالبتہ الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں مجموعی طور پر 78 مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کر دی تھیں۔ اگر یہ تمام نشستیں سنی اتحاد کونسل کو مل گئیں تو حکمراں اتحاد قومی اسمبلی اور ایوانِ بالا میں دو تہائی اکثریت کھو دے گا اور پی ٹی آئی کے بغیر آئین میں ترمیم ممکن نہیں ہو پائے گی۔
عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی نے سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے خیبر پختونخوا میں حکومت تو بنا لی ہے۔ تاہم صوبائی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی خصوصی نشستوں پر منتخب اراکین کی حلف برداری اب تک نہیں ہو پائی ہے۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کو سات جنرل نشتوں پر 10، مسلم لیگ (ن) کو چھ جنرل نشستوں پر آٹھ اور پیپلز پارٹی کو چار جنرل نشستوں پر چھ خصوصی نشستیں الاٹ کی تھیں۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمینٹیرین کو ایک ایک جنرل نشست پر ایک ایک مخصوص نشست دی گئی تھی۔
سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر لارجر بینچ
مخصوص نشستوں کی واپسی کے لیے سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جسے اعلیٰ عدالت نے پیر کو منظور کرتے ہوئے لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے اسے کمیٹی کو ارسال کر دیا تھا۔
الیکشن کمیشن کو عرصہ دراز سے رپورٹ کرنے والے سینئر صحافی افتخار اے خان کہتے ہیں اگر سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ ہوا تو قومی اسمبلی میں اسے 23 مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔
اس وقت ان 23 نشستوں میں سے 22 حکمراں اتحاد جب کہ ایک نشست جے یو آئی ف کے پاس ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے افتخار اے خان نے کہا کہ قومی اسمبلی میں حکمراں اتحاد کے اراکین کی تعداد اس وقت 228 ہے، اگر 22 مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کو نکال دیا جائے تو حکمراں اتحاد کے اراکین کا تعداد کم ہو کر 206 رہ جائے گا اور حکومتی جماعتیں ایوان میں دو تہائی اکثریت سے محروم ہو جائیں گی۔
SEE ALSO: مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو ملنے سے پارٹی پوزیشن کیا ہو گی؟سینئر تجزیہ کار اور صحافی نصرت جاوید کا بھی کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں مخصوص نشستیں ملنے کی صورت میں سنی اتحاد کونسل کے اراکین کی تعداد حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے زیادہ ہوجائے گی اور عملی طور پر وہ سنگل لارجر پارٹی کے طور پر سامنے آئے گی۔
پارلیمانی روایات کے تحت قومی اسمبلی میں اکثریت رکھنے والی جماعت کو اخلاقی طور پر حکومت بنانے کا اختیار ہوتا ہے۔
نصرت جاوید کے مطابق اگر سنی اتحاد کونسل قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تو ایک نئی بحث چھڑ سکتی ہے۔ البتہ یہ منظرنامہ سپریم کورٹ کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کے حق میں فیصلہ آنے کی صورت میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
مخصوص نشستیں ملنے کی صورت میں سینیٹ کا منظرنامہ کیا ہوگا؟
پاکستان کے ایوانِ بالا سینیٹ کے کل اراکین کی تعداد 96 ہے جہاں دو تہائی اکثریت کے لیے 64 ارکین کی حمایت درکار ہے۔ مگر حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے ارکین کی تعداد 57 ہے۔
حکمران اتحاد کو سات مزید اراکین سینیٹ میں درکار ہیں اور اس وقت صرف صوبہ خیبر پختوںخوا میں سینیٹ کی 11 نشستوں پر انتخاب ہونا باقی ہے۔
SEE ALSO: پاکستان سینیٹ: 37نشستوں پر انتخابات مکمل، حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت کے لیے مزید 7 ارکان درکارماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سنی اتحاد کونسل کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں خصوصی نشستیں مل گئیں تو سینیٹ کی 11 میں سے 9 نشستوں پر سنی اتحاد کا جیتنا یقینی ہے۔ اس طرح حکمران اتحاد کو سینیٹ میں بھی دو تہائی کے لیے درکار اراکین کی تعداد حاصل نہیں ہو پائے گی۔
وفاقی حکومت کو دو تہائی اکثریت کیوں چاہیے؟
موجودہ وفاقی حکومت اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری سے متعلق آئین کے آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس حوالے سے وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ باضابطہ بیان بھی دے چکے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں بھی اضافہ کرنے کی تجویز پر غور کر رہی ہے۔
شہر اقتدار میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ کچھ حلقے 18ویں آئینی ترمیم میں رد و بدل چاہتے ہیں۔ اسی طرح وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب عندیہ دے چکے ہیں کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم کرنے کے لیے سیاسی اتفاق کے ساتھ ساتھ آئینی ترمیم بھی درکار ہے۔
واضح رہے کہ آئینِ پاکستان میں کسی بھی قسم کی ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ آئین میں دو تہائی اکثریت کی تعداد سے کم اراکین آئین میں ترمیم کا کوئی بل منظور نہیں کر سکتے۔
سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملنے کی صورت میں حکومت کے لیے سنی اتحاد کی حمایت کے بغیر آئینی ترمیم کرنا عملی طور پر ممکن نہیں ہوگا اور یوں حکومت کی آئین میں ترامیم کی خواہش ادھوری رہ جائے گی۔