|
بائیڈن انتظامیہ نے جمعے کو کہا ہےکہ اسرائیل کی جانب سے، غزہ میں امریکہ کے فراہم کردہ ہتھیاروں کے استعمال میں ممکنہ طور پر بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے، لیکن فلسطینی علاقوں میں جنگ کے حالات کے باعث امریکی حکام مخصوص فضائی حملوں میں اس بات کا تعین نہیں کر سکے۔
غزہ جنگ میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے معقول شواہد کی تلاش سے متعلق جائزہ، جمعے کو کانگریس میں پیش کی جانے والی رپورٹ کے خلاصے میں جاری کیا گیا ہے، جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اس نوعیت کی سخت ترین رپورٹ ہے۔
اگرچہ امریکہ، غزہ جنگ میں اسرائیلی فورسز کے حملوں میں مخصوص امریکی ہتھیاروں کے استعمال کو انفرادی حملوں سے فوری طور پر منسلک نہیں کر پایا، لیکن انتظامیہ کے لیے مستقبل میں اسرائیل کو مخصوص ہتھیاروں کی فراہمی روکنے سے متعلق فیصلے کرنے کی راہ آسان ہو گئی ہے۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا جائزہ ہے جس کے لیے کانگریس میں صدر بائیڈن کے ساتھی ڈیموکریٹس نے زور دیا تھا۔ یہ جائزہ سات ماہ کے فضائی حملوں، زمینی لڑائیوں اور فلسطینی علاقے میں امداد کی فراہمی پر پابندیوں کے بعد سامنے آیا ہے۔
اس لڑائی میں اب تک 35 ہزار کے لگ بھگ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے۔
اسرائیل۔ حماس جنگ 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے بعد شروع ہوئی جس میں 1200 اسرائیلی مارے گئے تھے اور 250 یرغمال بنا لیے گئے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ امریکی حکام مخصوص حملوں سے متعلق درکار تمام معلومات اکھٹی کرنے میں ناکام رہے ہیں، لیکن امریکی ہتھیاروں پر اسرائیل کے انحصار کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی سیکیورٹی فورسز جن ہتھیاروں کو 7 اکتوبر سے استعمال کر رہی ہیں، ان کا استعمال بین الاقوامی انسانی قانون کےتحت اسرائیل کی ذمےداریوں سے مطابقت نہیں رکھتا جن میں شہری نقصانات کو کم سے کم رکھنے کے لیے کہا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ اسرائیلی فوج کے پاس تجربہ، ٹیکنالوجی اور معلومات ہیں کہ عام شہری نقصانات کو کیسے محدود ترین سطح پر رکھا جا سکتا ہے، لیکن شہری ہلاکتوں کی وسیع تر سطح کئی سوالات کو جنم دیتی ہے جن کا تعلق ہتھیاروں کے مؤثر استعمال سے ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ تمام امریکی اور بین الاقوامی قوانین پر عمل کر رہا ہے۔ اور وہ اپنی سکیورٹی فورسز کی طرف سے بدسلوکی کے الزامات کی تحقیقات کرتا ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ غزہ میں اس کی مہم حماس کی جانب سے اسرائیلی ریاست کے وجود کو لاحق خطرے کے خلاف ہے۔
صدر بائیڈن کو، فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں اور غزہ پر قحط کے منڈلاتے ہوئے خطرات کے باوجود وزیر اعظم نیتن یاہو کے لیے محتاط حمایت جاری رکھنے پر ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
تاہم بائیڈن کی سخت مخالفت کے باوجود پناہ گزینوں سے بھرے ہوئے غزہ کے شہر رفح پر اسرائیلی فوج کے حملے سے حالیہ ہفتوں میں امریکی انتطامیہ کے ساتھ نیتن یاہو کی کشیدگی مزید بڑھی ہے۔
صدر بائیڈن کے لیے ایک مشکل یہ ہے کہ صدارتی انتخابات قریب آ رہے ہیں۔ انہیں بہت سے ڈیموکریٹس کی جانب سے اسرائیل کی امداد میں کمی کرنے کے مطالبے اور صدارتی انتخابی مہم میں اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کی طرف سے اس الزام کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ ضرورت کے وقت میں اسرائیل کی مدد سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ نے رفح پر حملے کے بعد اسرائیل کے لیے 3500 بموں کی ترسیل معطل کر دی ہے۔
فروری میں جاری ہونے والے ایک صدارتی حکم میں دفاع اور ریاستی محکموں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ان قابل بھروسہ رپورٹس یا الزامات کا جائزہ لیں جن میں کہا گیا ہے کہ امریکی ہتھیاروں کے استعمال میں بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی انسانی قانون کے تقاضوں کو ملحوض نہیں رکھا گیا۔
اس میں کانگریس کو یہ بتانے کا بھی پابند کیا گیا ہے کہ آیا وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل نے غزہ میں بھوک سے مرنے والے شہریوں کے لیے امریکی تعاون سے انسانی امداد کی ترسیل کے حوالے سے دیدہ دانستہ انکار کیا، یا اسے محدود کیا یا براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس میں رکاوٹ ڈالی۔
قانون سازوں اور دیگر ان افراد نے، جنہوں نے غیرملکی امریکی فوجی امداد کے سلسلے میں نظر ثانی کے حق میں دلائل دیے تھے، کہا ہے کہ بائیڈن اور امریکہ کے سابقہ رہنماؤں نے غیر ملکی افواج کے امریکی امداد کو استعمال کرنے سے متعلق امریکی قوانین کے اطلاق میں دوہرے معیار سے کام لیا ہے۔ امریکی انتظامیہ اس الزام سے انکار کرتی ہے۔
انہوں نے امریکی انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ قانونی طور پر یہ تعین کرے کہ آیا اس بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں کہ اسکولوں، پرہجوم محلوں، طبی کارکنوں، امدادی قافلوں اور دیگر اہداف پر اسرائیلی فضائی حملے کیے گئے ہیں اور غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل پر پابندیاں لگائی گئی ہیں اور جنگی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔
مخالفین یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل اس وقت حماس اور ایرانی حمایت یافتہ دیگر گروپس کے ساتھ بھی لڑ رہا ہے، امریکہ کی جانب سے اسرائیلی خلاف ورزیوں سے متعلق شواہد کی تلاش اس کی کوششوں کو کمزور کر سکتی ہے۔
اسرائیل کے خلاف شواہد ڈھونڈنے کی کوئی بھی کوشش اسرائیل کی بھرپور حمایت کرنے والے ووٹرز کی جانب سے اس سال کے صدارتی انتخابات میں بائیڈن کی حمایت کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں طویل عرصے سے اسرائیلی سیکیورٹی فورسز پر فلسطینیوں سے بدسلوکی کے الزامات لگا رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی رہنما ذمہ دار افراد کا احتساب کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
جنوری میں جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کیے جانے والے ایک مقدمے میں اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت نے اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ غزہ میں اموات، تباہی اور نسل کشی کی کسی بھی کارروائی کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ تاہم عدالت نے غزہ میں فوجی کارروائی ختم کرنے کا حکم صادر نہیں کیاتھا۔
(اس آرٹیکل کے لیے معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)
فورم