آئی ایم ایف سے قرض ملنے میں تاخیر؛ پاکستان کو کیا نقصان ہو سکتا ہے؟

  • آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر سے پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں: معاشی ماہرین
  • پاکستان اور آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول کی سطح پر ہونے والا معاہدہ 12 جولائی کو طے پایا تھا۔
  • آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق پاکستان کو قرض پروگرام کے اجرا سے قبل ان ممالک سے یقین دہانیاں حاصل کرنا ہوں گی جنہوں نے پاکستان کو قرض دے رکھا ہے۔
  • پاکستان کسی صورت آئی ایم ایف پروگرام سے باہر رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا: معاشی ماہر سلمان احمد نقوی

دوست ممالک کی جانب سے پاکستان کے قرضے رول اوور کرنے میں تاخیر کی وجہ سے سات ارب ڈالرز کے آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری بھی کھٹائی میں پڑ رہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر پروگرام میں تاخیر ہوئی تو معیشت پر اس کے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے پاکستان کی معاشی ریٹنگ پر پڑ سکتا ہے جب کہ ملک کے لیے بین الاقوامی ادائیگیوں کے مسائل بھی مزید سنگین ہو جائیں گے۔

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ مشکل فیصلوں سے کسی حد تک حاصل کیے گئے معاشی استحکام کو بھی ضرب پڑ سکتی ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول کی سطح پر ہونے والا معاہدہ 12 جولائی کو طے پایا تھا۔ لیکن اس معاہدے کی حتمی منظوری فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ نے دینی تھی جو اب تک ممکن نہیں ہوئی ہے اور بورڈ کے نو ستمبر تک جاری شیڈول میں پاکستان کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے۔

پروگرام کی حتمی منظوری میں اصل رکاوٹ کہاں ہے؟

لیکن اس معاہدے کی منظوری میں اصل رکاوٹ بورڈ کی جانب سے نہیں بلکہ پاکستان کی جانب سے شرائط پوری نہ کیا جانا بتایا جا رہا ہے۔

بورڈ کی شرط کے مطابق پاکستان کو قرض پروگرام کے اجرا سے قبل ان ممالک سے یقین دہانیاں حاصل کرنا ہوں گی جنہوں نے پاکستان کو قرض دے رکھا ہے۔

پاکستان کو چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرضے رول اوور کرانے کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالرز کے بین الاقوامی قرضے بھی چکانے ہیں جس کے لیے مختلف آپشنز زیرِ غور ہیں۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان آپشنز میں مشرق وسطیٰ کے بینکوں سے نئے قرضوں کے حصول اور سعودی عرب سے تیل مؤخر ادائیگی پر خریداری جیسے آپشنز شامل ہیں۔

'بیرونی سرمایہ کاروں کو منفی پیغام جا سکتا ہے'

ماہر معاشیات عبدالعظیم خان کا کہنا ہے کہ اگر یہ تاخیر جاری رہی تو پاکستان کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس کا پہلا اثر تو اسٹاک مارکیٹ پر نظر آئے گا جہاں حالیہ عرصے میں کافی استحکام نظر آیا ہے اور وہاں غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اُن کے بقول اگر فنڈ کی جانب سے پروگرام کے اجرا میں مسلسل تاخیر جاری رہی تو سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی آئی گی اور مارکیٹ گراوٹ کا شکار ہو سکتی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان کی معیشت کو کن اصلاحات کی ضرورت ہے؟

'پاکستان کے لیے فنڈ پروگرام سے باہر رہنا کوئی آپشن ہی نہیں'

ایک اور ماہر معاشیات سلمان احمد نقوی کا خیال ہے کہ پاکستان کسی صورت آئی ایم ایف پروگرام سے باہر رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لہذٰا اسے وہ شرائط پوری کرنا ہو گی جو پہلے سے طے شدہ ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے سے قبل اور حکومت کے قیام کے بعد ایسے سخت معاشی فیصلے کیے گئے جس سے عوام کو مہنگائی اور زیادہ ٹیکسز کا سامنا کرنا پڑا۔

لیکن ان فیصلوں سے کسی حد تک ملک میں معاشی استحکام ضرور دیکھا گیا ہے اور اگر یہ پروگرام بروقت شروع نہ ہوا تو پھر معاشی استحکام برقرار رکھنا مشکل ہو گا۔

سلمان احمد نقوی کہتے ہیں کہ حکومت کو اس حوالے سے اندرونی محاذ پر محصولات جمع کرنے اور بیرونی محاذ پر قرضے رول اوور کرنے کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے حکومت سرتوڑ کوشیں کر رہی ہے۔

انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ حکومتی کوششیں ضرور کامیاب ہوں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ بیرونی محاذ پر اس وقت اصل رکاوٹ چین کی جانب سے قرضے رول اوور نہ کرنا ہے جب کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کے ذمے رواں سال واجب الادا قرضے پہلے ہی رول اوور کر چکے ہیں۔

ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کی سفارت کاری کو اپنے جوہر دکھانے ہوں گے۔ اور چین کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے اسے اس بات پر قائل کرنا ہو گا کہ وہ رول اوور دینے کے ساتھ پاکستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت سرمایہ کاری کرے۔

حکومت پراُمید

دوسری جانب گورنر اسٹیٹ بینک نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ فنڈ پروگرام سے مشروط دو ارب ڈالر کا حصول اگلے مراحل میں ہے۔

خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کو دیے گئے انٹرویو میں جمیل احمد کا کہنا تھا کہ حکومت مشرق وسطیٰ کے بینکوں سے اگلے مالی سال تک چار ارب ڈالر کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔

انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ملک کی فنانسنگ کی ضروریات باآسانی پوری کر لی جائیں گی۔ گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بیرونی مجموعی مالیاتی ضروریات گزشتہ چند سالوں میں بتدریج کم ہورہی ہیں۔