ایس سی او اجلاس ختم؛ رُکن ملکوں کے تعلقات میں تناؤ کے باعث چیلنجز برقرار

n

شنگھائی تعاون تنظیم کا دو روزہ سربراہی اجلاس جمعے کو مشترکہ اعلامیے کے بعد ختم ہو گیا ہے جس میں رُکن ملکوں نے تجارتی روابط کو فروغ دینے اور انسدادِ دہشت گردی کے لیے مشترکہ کاوشیں کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رُکن ملکوں کے تعلقات میں تناؤ اور عالمی تنازعات پر مختلف آرا اس فورم کے مؤثر ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے رہنماؤں نے سمرقند اعلامیے میں اہم عالمی اور علاقائی مسائل پر ایس سی او کے اجتماعی مؤقف کو واضح کرنے کے علاوہ آب و ہوا کی تبدیلیوں، غذائی چیلنجز اور توانائی سمیت دیگر اُمور پر تعاون پر زور دیا ہے۔

ایس سی او اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہوا جب یوکرین جنگ کی وجہ سے کئی ممالک کو خطے میں بڑھتی ہوئی گیس اور تیل کی قیمتوں کی وجہ سے ملکی معیشت کو مستحکم رکھنا ایک چیلنج بن گیا ہے جو کرونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے پہلے ہی دباؤ کا شکار تھی۔ دوسری جانب ایسی سی او کے رُکن ملک پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ملک کی تاریخ کے غیر معمولی سیلاب کا سامنا ہے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے جمعے کو ااجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم پر زور دیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مؤثر لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔

ایران بھی اب ایس سی او کا رُکن بن گیا ہے جب کہ خطے کے کئی دیگر ممالک بھی اس تنظیم کی رکنیت حاصل کرنے کے خواہاں ہیں جس میں دنیا کی دو بڑی طاقتوں روس اور چین کا اہم کردار ہے۔

ایس سی او کی رکن ممالک کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا 40 فی صد ہے ان کی دنیا کی مجموعی پیدوار میں ان ممالک کا حصہ لگ بھگ 30 فی صد ہونے کے باوجود بعض سیاسی اور اسٹرٹیجک مشکلات کی وجہ سے تنظم کے رکن ممالک کے درمیان مربوط تجارتی روابط استوار کرنا ایک چیلنج رہے گا۔


دوسری جانب ایس سی او میں جنوبی ایشیا کے دو اہم رکن ممالک پاکستان اور بھارت کے علاقائی تجارتی رابطوں کے بارے میں مختلف ترجیحات ایس سی او کے ایک مؤثر تجارتی اتحاد بننے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔

اسلام آباد چین پاکستان اقتصادی راہداری'سی پیک ' کو افغانستان اور اس سے آگے وسط ایشائی ریاستوں تک فروغ دنیا چاہتا ہے جس پر بھارت کے تحفظات ہیں لیکن بھارت ایران کی چاہ بہار بندر گاہ کے راستے افغانستان ا ور وسط ایشائی ریاستوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔

دوسری جانب اپنے اہم جغرافیائی محل وقوع کے باوجود پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ ایس سی او کا رکن ہونے کے ناطے اپنے جیو اکنامکس اہداف کیسے حاصل کر سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کے چین کے علاوہ ایس سی او کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں زیادہ گرمجوشی نہیں ہے۔ لیکن افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد اگرچہ ملک میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے.جب تک عالمی دنیا افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرتی پاکستان کے لیے وسط ایشائی ریاستوں اور روس سے گیس یا بجلی حاصل کرنے کوئی بھی منصوبہ پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری کہتے ہیں کہ یوکرین میں روس کی فوجی مداخلت کے بعد روس پر مغربی ممالک کی طرف سے عائد ہونے والے تعزیرات کے بعد روس کی توجہ بھی اب ایشیائی ممالک کی طرف مبذول ہو رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستا ن کے لیے یوریشیائی ممالک تک پہنچے کا راستہ بھی افغانستان سے گزر کر آگے جا سکتا ہے۔ اس لیے ان کےبقول پاکستان کے لیے شنگھائی تعاون تنطیم کے ممالک کے ساتھ قریبی روابط استوار رکھنا نہایت اہم ہے۔

لیکن اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ ورلڈآرڈر کو دنیا کی عالمی طاقتوں بشمول امریکہ ،چین اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت کی وجہ سے چیلنج کا سامنا ہے جب کہ مختلف ممالک کے درمیان قدرتی وسائل اور توانائی کی کمی کا چیلنج بھی درپیش ہے۔


بین الااقوامی امور کے تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ ایس سی او اس وقت ایک مضبوط اور مؤثر تنظیم نہیں بن سکتی ہے جب تک اس کے رکن ممالک کے باہمی اختلافات برقرار رہیں گے، چین اور بھارت کے درمیان تعلقات بھی تناؤ کا شکار رہے ہیں۔

لیکن انہوں نے کہا کہ اگر ایس سی او ممالک میں ہم آہنگی ہوتی ہے تو توانائی کی راہداریاں تعمیر کر نے کی طرف یہ ممالک پیش رفت کر سکتے ہیں۔

اُن کے بقول آسیان خطے کے ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو فروغ کے لیے بنائی گئی ہے جب کہ ایس سی او کا محور سیکیورٹی اور انسدادِ دہشت گردی ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ ایس سی او ملکوں کے باہمی تعلقات اور ریاستوں کے اختلافات بھی ایک رکاوٹ ہیں، لیکن اگر حالات بہتر ہوں تو یہ تنظیم مستقبل میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

لیکن ان کےبقول پاکستان اور بھارت اپنے باہمی سیاسی اور دیگر مسائل کو حل کر لیتے ہیں تو اسی سی او کے پلیٹ فارم کے اہداف اور مقاصد کو حاصل کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔

ایس سی او ممالک نے افغانستان کی سیکیورٹی اور استحکام کے لیے جامع حکومت کے قیام پر زور دیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایک خود مختار، پرامن اور منشیات سے پاک افغانستان خطے کے مفاد میں ہے۔

اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ جب تک عالمی برداری افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتی ہے اس وقت تک ایس سی او کےر کن ممالک کے درمیان تجارتی اور رہداری کے رابطوں کا فروغ ممکن نہیں ہے

انھوں نے کہا کہ طالبان اگر عالمی برداری کی توقعات کے مطابق قدم بڑھائے تو دنیا بھی ان کی طرف اپنا رویہ نرم کر سکتی ہے لیکن انھوں نے کہا ایسا بظاہر ہونا نظر نہیں آ رہا ہے ۔