اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے، وزیر اعظم عمران خان ہفتے کے روز نیو یارک پہنچے۔
جے ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر آمد کے موقعے پر پاکستانی سفیر اسد مجید خان اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے وزیر اعظم کا استقبال کیا۔
ان کے وفد میں وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور سمندر پار پاکستانی امور کے وزیر ذوالفقار بخاری شامل تھے۔
اپنے سات روزہ قیام کے دوران، وہ اقوام متحدہ کی کارروائیوں میں شریک ہوں گے اور مختلف ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کریں گے۔
23 ستمبر کو وزیر اعظم عمران خان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات ہوگی؛ جب کہ 27 ستمبر کو وزیر اعظم جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔
ہفتے کو اپنی آمد کے فوری بعد، وزیر اعظم عمران خان نے ایک کشمیری وفد سے ملاقات کی۔
نیو یارک میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے، وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے بتایا ہے کہ ’’وزیر اعظم عمران خان کے سات روزہ دورہ امریکہ کا بنیادی مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری بھارتی مظالم سے دنیا کو آگاہ کرنا ہے‘‘۔
وزہر اعظم کی تھنک ٹینکس کے ساتھ بھی ملاقاتیں ہوں گی۔ امریکہ کے دو معروف تھینک ٹینکس ’ایشیا سوسائٹی‘ اور ’کونسل آن فارن ریلیشنز‘ سے بھی وزیر اعظم ملیں گے اور تبادلہ خیال کریں گے۔
ترکی، ملائشیا اور پاکستان مل کر ایک سہ ملکی اجلاس منعقد کریں گے، جس کا عنوان ’اسلامو فوبیا‘ کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’احساس پروگرام‘ کے حوالے سے وزیر اعظم بات کرنے کے خواہاں ہیں چونکہ ’’دیرپہ ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے حکومت ’احساس پروگرام‘ کو بہت اہمیت دیتی ہے‘‘۔
اس کے علاوہ، پاکستانی وزیر اعظم موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پر بھی اظہار خیال کریں گے۔
ذرائع کے مطابق، وزیر اعظم فنانشل ورلڈ کی اہم شخصیات سے بھی ملاقات کریں گے اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے اپنا نقطہ پیش کریں گے کہ کس طرح بڑے ممالک کو منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسے کی ترسیل ہوتی ہے جس سے تیسری دنیا کے ممالک مزید غربت کا شکار ہوتے ہیں۔
نیو یارک روانہ ہونے سے قبل سعودی عرب میں قیام کے دوران، سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ وزیر اعظم پاکستان کی اہم ملاقاتیں ہوئیں اور مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر خارجہ نے بتایا کہ ’’جہاں پاکستان نے سعودی قیادت سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے، وہاں ان سے یہ بھی کہا ہے کہ ایسا فیصلہ عجلت میں نہیں کرنا چاہیے جس سے خطے کا امن متاثر ہو۔‘‘