جنرل باجوہ نے امریکیوں کو بتایا میں اینٹی امریکہ ہوں: عمران خان

  • سارہ زمان

جمعے کو اپنے انٹرویو میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے امید ظاہر کی کہ فوج سیاست میں مداخلت ترک کرے گی۔

پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ نے امریکیوں کو باور کرایا کہ وہ یعنی عمران خان امریکہ کے خلاف ہیں اور ان کی حکومت ختم کرنے کا منصوبہ امریکہ سے پاکستان نہیں آیا بلکہ پاکستان سے امریکہ گیا تھا۔

وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹریو میں عمران خان نے سیاست، فوج سے تعلقات ، اپنی حکومت کے خاتمے کی مبینہ امریکی سازش سے متعلق دعوؤں اور الزمات سمیت پاکستان کے سیکیورٹی چیلنجز سے متعلق کئی سوالات کے جواب دیے۔

جمعے کو انٹرویو میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے امید ظاہر کی کہ فوج سیاست میں مداخلت ترک کرے گی اور وہ مستقبل میں امریکہ سے اچھے تعلقات کو پروان چڑھائیں گے۔

پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد سے عوامی سطح پر ملکی اسٹیبلشمنٹ بالخصوص فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

وہ متعدد بار یہ الزام دہرا چکے ہیں کہ جنرل باجوہ نے ان کے سیاسی مخالفین اور امریکہ سے مل کر سازش کی اور انہیں اقتدار سے نکالا۔ واشنگٹن، پاکستان کی فوج اور موجودہ حکومت تینوں ہی با رہا عمران خان کے اس الزام کی تردید کر چکے ہیں۔

'آرمی چیف ہی فوج ہے'

فوجی قیادت سے تعلقات کے ایک سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فوج سے مراد صرف ایک شخص یعنی آرمی چیف ہوتا ہے۔ فوج کے سویلین حکومت کے ساتھ تعلقات اور پالیسی کا دار و مدار صرف اسی ایک شخص پر ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس دوران جنرل باجوہ کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات رہے، اس وقت بھی فوج نہیں بلکہ جنرل باجوہ اور وہ ایک پیج پر رہے۔ ان کے بقول، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری مدد کے لیے فوج کی ایک منظم طاقت تھی اور ہم نے ساتھ مل کر کام کیا۔ جس کی وجہ سے پاکستان نے کرونا وائرس کا مقابلہ کامیابی سے کیا۔

ان کا کہنا تھا:" لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جنرل باجوہ نے ملک کو سب سے زیادہ لوٹنے والوں کی مدد کی۔ کرپشن جنرل باجوہ کے نزدیک کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ہم اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کریں جس کا مطلب یہ تھا کہ ہم انہیں کرپشن کیسز پر ریلیف دیں۔"

عمران خان نے کہا کہ جنرل باجوہ کے شہباز شریف سے بھی قریبی تعلقات تھے جن کے ساتھ مل کر انہوں نے سازش کی اور حکومت تبدیل ہوگئی۔

فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ہمراہ۔ (فائل فوٹو)

'سازش امریکہ نے نہیں جنرل باجوہ نے کی'

عمران خان نے گزشتہ سال تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد ایک جلسے میں ایک خط لہراتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خلاف بیرونی سازش ہوئی ہے اور اسی سازش کے تحت اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائی تھی۔

بعد ازاں انہوں نے کئی جلسوں اور خطابات میں امریکہ پر اپنی حکومت کے خلاف سازش کا الزام لگایا۔ البتہ امریکہ، پاکستانی حکومت اور فوج کی جانب سے اس کی بار بار تردید کی جاچکی ہے۔

مبینہ امریکی سازش کے بارے میں عمران خان نے کہا کہ بہت سی باتیں کھلنا شروع ہوئیں تو معلوم ہوا ہے کہ یہ امریکہ نے نہیں کیا تھا۔ شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یہ جنرل باجوہ تھے جنہوں نے امریکیوں کو بتایا کہ وہ یعنی عمران خان امریکہ کے خلاف ہیں۔ ان کے بقول :’’مجھے نکالنے کا منصوبہ امریکہ سے پاکستان نہیں آیا بلکہ پاکستان سے امریکہ گیا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ البتہ سائفر ایک حقیقت ہے جسے نیشنل سیکیورٹی کونسل اور کابینہ کے سامنے بھی پیش کیا گیا تھا۔ لیکن اب یہ ماضی بن چکا ہے اور ہم اس سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ پاکستان کی بہتری امریکہ سے اچھے تعلقات میں ہے اور ہم یہی کرنا چاہتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

'سیاست میں مداخلت پر جنرل باجوہ کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے'

'شفاف انتخابات ممکن نہیں'

نئی فوجی قیادت سے متعلق سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ انہیں رجیم چینج کے تجربے کی ناکامی کا ادراک ہوگا۔ ہم ملکی تاریخ کے سب سے بڑے معاشی بحران سے گزر رہے ہیں اور اس سے نکلنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ راستہ صرف ایک ہی ہے کہ ہم یہ متعین کریں کہ پاکستان اب کیسے چلے گا۔

عمران خان نے الیکشن کمیشن کی غیر جانب داری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انتخابات تو ہوں گے مگر شفاف انتخابات نہیں ہوں گے۔

آئندہ عام انتخابات کے نتائج قبول کرنے سے متعلق سوال پر عمران خان نے کہا کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ حال ہی میں سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جنہیں تمام ہی جماعتوں نے مسترد کیا۔ انتخابات میں دھاندلی تو ہوگی لیکن کتنے بڑے پیمانے پر ہوگی، اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

'دہشت گردی بڑھنے کی وجہ سیکیورٹی اداروں کی غفلت ہے'

اس سوال پرکہ کیا وہ افغانستان میں طالبان حکومت کو پاکستان کا دوست سمجھتے ہیں؟ عمران خان کا کہنا تھاکہ افغانستان میں کسی بھی حکومت سے پاکستان کے اچھے تعلقات ہونا ضروری ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ انہوں نے اشرف غنی کی حکومت سےبھی اچھے تعلقات کی کوشش کی۔ افغا ستان س کے ساتھ پاکستان کے2500 کلومیٹر طویل سرحد ہے اور کابل سے اچھے تعلقات کا مطلب ہے کہ اگر دہشت گردی کا مسئلہ اٹھتا ہے تو وہ ہماری مدد کریں گے۔

ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق سوال پر سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاکستان کی حکومت کے پاس محدود راستے تھے۔ جب افغانستان میں طالبان اقتدار میں آئے اور انہوں نے ٹی ٹی پی کے بارے میں فیصلہ کیا تو ہم بات کررہے ہیں 30 سے 40 ہزار افراد کی جس میں بچے اور پورے خاندان شامل تھے، اگر وہ انہیں پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کر لیتے تو ہم کیا کرتے؟ کیا ہم انہیں قطاروں میں کھڑا کر کے گولی ماردیتے یا پھر ہمیں ان سے بات چیت کر کے انہیں دوبارہ آباد کرنا چاہیے تھا؟

سابق وزیرِ اعظم نے کہا:"ہماری میٹنگ ہوئی اور خیال یہ تھا کہ ان کی آبادکاری کا فیصلہ قبائلی علاقوں کے سیاست دانوں، سیکیورٹی فورسز اور ٹی ٹی پی کو ساتھ بٹھا کر کیا جائے۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکا کیوں کہ ہماری حکومت چلی گئی اور نئی حکومت نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔"

ان کے بقول پھر وقت کے ساتھ یہ خطرہ بڑھتا گیا اور یہ ممکن ہے کہ دہشت گرد دوبارہ منظم ہو گئے ہوں۔ لیکن اس دوران پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کہاں تھیں؟ انٹیلی جنس ایجنسیاں کہاں تھیں؟ کیا وہ انہیں منظم ہوتا نہیں دیکھ رہی تھیں؟ تو پھر ان کی غفلت کی ذمّے داری ہم پر کیسے ڈالی جاسکتی ہے؟

پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ بڑھتی کارروائیوں پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک میں تحریکِ طالبان پاکستان کی سرگرمیاں سیکیورٹی فورسز کی غفلت کی وجہ سے دوبارہ شروع ہوئی ہیں۔

’اخلاقی بیانات کی سہولت نہیں‘

عمران خان چین میں ایغور کمیونیٹی کے حقوق سے متعلق مختلف بیانات دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے ایک انٹریو میں پہلے چین میں ایغور کمیونٹی کے خلاف چینی حکومت کی امتیازی کارروائیوں کا سرے سے انکار کردیا تھا بعدازاں یہ موقف اختیار کیا کہ وہ یہ معاملہ انفرادی سطح پر چین کے سامنے اٹھائیں گے۔

ان سے سوال کیا گیا کہ وہ ایغور کمیونٹی کےحقوق کی خلاف ورزی پر اس لیے بات نہیں کرتے کہ پاکستان کو اس کی قیمت اٹھانا پڑ سکتی ہے کیوں کہ پاکستان چین پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ جب کہ کشمیر اور فلسطین پر اس لیے بات کرتے ہیں کہ اس کے پاکستان پر سیاسی اثرات مرتب نہیں ہوتے؟ کیا کسی ملک کو اس انداز میں اخلاقی موقف اختیار کرنا چاہیے؟

ان کا کہنا تھا کہ بطور وزیرِ اعظم وہ اپنے ملک کے 22 کروڑ عوام کے ذمے دار تھے۔ اور اس معاملےمیں انہوں نے وہی کیا جو مغربی ممالک کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے باوجود بھارت نے یک طرفہ طور پر کشمیر کی زمین پر قبضہ کرلیا۔ لیکن مغربی ممالک نے اسٹریٹجک پارٹنر ہونے کی وجہ سے بھارت کے خلاف ردعمل نہیں دیا کیوں کہ اس سے ان کے معاشی مفادات متاثر ہوتے ہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے غریب ممالک کو اخلاقی بیانات دینے کی سہولت دست یاب نہیں ہے۔