|
راولپنڈی کی احتساب عدالت نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر القادر ٹرسٹ کیس میں فردِ جرم عائد کر دی ہے۔
احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے القادر ٹرسٹ سے متعلق 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کی سماعت کی اور اس موقع پر فردِ جرم پڑھ کر سنائی۔
ملزمان نے صحتِ جرم سے انکار کیا جس پر عدالت نے آئندہ سماعت پر پانچ گواہوں کو طلب کر لیا۔
فردِ جرم کی کارروائی کے بعد احتساب عدالت نے ریفرنس کی سماعت چھ مارچ تک ملتوی کر دی۔
دورانِ سماعت عمران خان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ فردِ جرم عائد کرنے سے سات دن قبل ریفرنس کی کاپیاں فراہم کرنا ہوتی ہیں۔ 50 کے قریب دستاویزات ایسی ہیں جو پڑھے جانے کے قابلِ نہیں لیکن پھر بھی فردِ جرم عائد کی جا رہی ہے اور یہ دستاویزات اس کیس کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہیں۔
SEE ALSO: عمران خان کی عدالتوں میں پیشیوں پر پیشیاں؛’ ابھی تو میرا اسٹیمنا شروع ہوا ہے‘وکیل نے کہا کہ وہ فردِ جرم عائد کرنے میں کوئی رکاوٹیں کھڑی کرنا نہیں چاہتے۔ عدالتی وقت میں دستاویزات فراہم کر دی جائیں تو سات دن بعد دوبارہ آ جائیں گے۔
وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ تیزی سے کیس کو چلانا چاہتے ہیں۔ عدالت اگر فرد جرم عائد کرنا چاہتی ہے تو اس چیز کو بھی ریکارڈ پر لایا جائے۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے اعتراض کرتے ہوئے عدالت سے فردِ جرم عائد کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ گواہوں کے بیانات ریکارڈ کراتے وقت تمام ریکارڈ عمران خان اور بشریٰ بی بی کے وکلا کو فراہم کر دیا جائے گا۔
القادر ٹرسٹ کیس کیا ہے؟
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں 'القادر ٹرسٹ' کی بنیاد 2019 میں رکھی گئی تھی جس کے ٹرسٹی عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کی قریبی دوست فرح گوگی ہیں۔
القادر ٹرسٹ اُس وقت قائم کیا گیا تھا جب اُس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ سے ایک لفافے میں بند کاغذ پر درج سمری کی منظوری لی تھی۔ جس کے تحت برطانیہ سے پاکستان کو موصول ہونے والے 190 ملین پونڈ کی رقم کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کو یہ رقم بحریہ ٹاؤن کے برطانیہ میں ایک تصفیے کے نتیجے میں منتقل کی گئی تھی۔
بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خلاف برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی تحقیقات کے نتیجے میں ملک ریاض نے مقدمہ لڑنے کے بجائے تصفیہ کر لیا تھا جب کہ این سی اے نے 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دی تھی۔
لیکن یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ تک پہنچی تھی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے ایک تصفیے کے تحت قسطوں میں رقم ادا کر رہے ہیں۔