پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد پنجاب میں جہاں پہلی مرتبہ خاتون وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئی ہیں وہیں سندھ اسمبلی میں مراد علی شاہ مسلسل تیسری مرتبہ وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے ہیں۔
پنجاب اور سندھ میں حکومت سازی اور وزیرِ اعلیٰ کے عہدوں پر اُمیدواروں کی نامزدگیوں پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کا سید خاندان سے تعلق رکھنے والے اُمیدواروں پر اعتماد کی روایت 1988 سے چلی آ رہی ہے۔
سن 1988 میں بینظیر بھٹو نے وزیرِ اعلیٰ کے عہدے پر سید قائم علی شاہ کو نامزد کیا تھا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے موجودہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی والدہ کے طرز کا فیصلہ کرتے سید مراد شاہ کو وزیرِ اعلیٰ کے عہدے پر نامزد کیا۔
سندھ اسمبلی کے اسپیکر اور پھر قائد ایوان کے لیے سید برادری سے نامزدگی پر تنقید کرتے ہوئے صحافی جاوید مہر نے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ "سندھ کا نام تبدیل کر کے سید رکھ دیں، سندھ کو مبارک ہو وزیر اعلی کے بعد اسپیکر کا عہدہ بھی 'سید' کے حوالے۔"
پیپلز پارٹی پر اس طرح کی تنقید بعض حلقوں میں ایک پس منظر کی وجہ سے بھی کی جا رہی ہے۔
بھٹو خاندان اور سید فیملی کا تعلق
سن 1988 سے 2023 تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں صرف ایک مرتبہ سید برادری کے باہر سے انتخاب کیا گیا اور باقی عرصہ وزیرِ اعلیٰ کے عہدے پر سید برادری سے ہی انتخاب ہوتا رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بینظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لیا۔
سن 1988 کے انتخابات کے نتیجے میں بینظیر بھٹو وزیرِ اعظم منتخب ہوئیں اور صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی نے سید قائم علی شاہ کو وزیرِ اعلیٰ منتخب کرایا۔ اس کے بعد آفتاب شعبان میرانی 26 فروری 1990 سے پانچ اگست 1990 تک وزیرِ اعلی کے عہدے پر رہے۔
پیپلز پارٹی نے 1993 کے انتخابات جیت کر مرکز کے ساتھ سندھ میں سید عبداللہ شاہ کو وزیر اعلی سندھ منتخب کرایا ۔ سید عبداللہ شاہ 20 اکتوبر 1993 سے سات نومبر 1996 تک وزیرِ اعلیٰ سندھ رہے اور اب ان کے صاحبزادے اس منصب پر فائز ہیں۔
سن 2008 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد سندھ میں ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی نے حکومت قائم کی اور سید قائم علی شاہ ایک مرتبہ پھر وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے۔
سن 2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی مرکز میں تو حکومت قائم نہ کر سکی مگر سندھ میں تیسری مرتبہ سید قائم علی شاہ کو وزیرِ اعلی سندھ منتخب کرایا گیا اور وہ 30 مئی 2013 سے 30 جولائی 2016 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ سندھ کی تاریخ میں انہیں سب سے زیادہ عرصہ وزیرِ اعلیٰ رہنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔
سید قائم علی شاہ سے استعفیٰ لیے جانے کے بعد سید مراد علی شاہ کو وزیرِ اعلی منتخب کرایا گیا اور اب وہ مسلسل تیسری مرتبہ اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔
پیپلز پارٹی میڈیا سینٹر اسلام آباد کے انچارج نذیر دھوکی نے سید مراد علی شاہ کے انتخاب پر ہونے والی تنقید کو مسترد کر دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے سید مراد شاہ کو معاشی امور، معاملات میں مہارت اور قابلیت کی بنیاد پر وزیرِ اعلیٰ منتخب کیا ہے۔
ان کے بقول مسلم لیگ نواز اور عمران خان کے دورِ حکومت وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے لیے مشکل ادوار تھے لیکن وہ سندھ کا مقدمہ لڑتے رہے اور ان کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے کارکردگی کی بنیاد پر انتخابات میں پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔
سندھ کے نامور صحافی اور ادیب ممتاز بخاری مراد علی شاہ کے انتخاب پر چیزوں کو برادری کی بنیاد پر نہیں دیکھنا چاہیے کیوں کہ سندھ میں سید برادری کا ووٹ بینک ہونے کے ساتھ اس برادری کا احترام بھی کیا جاتا ہے۔
پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ شریف فیملی سے
مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں جب بھی حکومت بنائی تو وزارتِ اعلیٰ کے لیے انتخاب شریف خاندان سے ہی کیا ہے۔ سن 1985 سے 2022 تک شریف خاندان کے تین افراد میاں نواز شریف، شہباز شریف اور حمزہ شہباز تقریباً 18 برس وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر رہے ہیں۔
اب مریم نواز اگلے پانچ سال کے لیے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئی ہیں جس پر صحافتی، سیاسی اور عام حلقوں میں مریم نواز کی بطور وزیرِ اعلیٰ نامزدگی پر مسلم لیگ نواز کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ بعض حلقوں نے مریم کی نامزدگی کو درست فیصلے کے ساتھ مسلم لیگ ن کی موجودہ صورتِ حال میں ضرورت بھی تصور کر رہے ہیں۔
صحافی مطیع اللہ جان کہتے ہیں پاکستان کی سیاست میں میرٹ کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہوتے۔ سیاسی قیادت اہم عہدوں پر اپنے خاندان سے کسی کا انتخاب کرتی ہے کیوں کہ انہیں خوف ہوتا ہے کہ کہیں ان کے نامزد کردہ شخصیت ٹوٹ کر چلی نہ جائے۔
ان کے بقول اسٹیبلشمنٹ کو بھی خاندان سے نامزدگیاں سوٹ کرتی ہیں کیوں کے خاندان کے کسی ایک فرد کو کنٹرول کیا جائے یا پکڑا جائے تو باقی خاندان کے افراد دباؤ میں آ جاتے ہیں۔
صحافی نوشین یوسف کہتی ہیں وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے لیے ن لیگ کے پاس مریم نواز سے بہتر آپشن نہیں تھا کیوں کہ مریم کی جگہ اگر کسی اور نامزد کیا جاتا تو پارٹی میں اسے اتنا سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔
فورم