ججز کے الزامات کی سماعت سپریم کورٹ کے فل کورٹ کو کرنی چاہیے: عمران خان

  • ججز کے الزامات سنجیدہ نوعیت کے ہیں، سپریم کورٹ کے فل کورٹ کو سماعت کرنی چاہیے: عمران خان
  • بشریٰ بی بی کے کھانے میں زہر ملایا جا رہا ہے، اُن کا میڈیکل چیک اپ کرایا جائے: عمران خان

سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط کے معاملے پر سات رُکنی بینچ کے بجائے سپریم کورٹ کے فل کورٹ کو سماعت کرنی چاہیے۔

منگل کو اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ شکر ہے کہ جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے کمیشن کی سربراہی سے انکار کیا۔

عمران خان نے یہ گفتگو اڈیالہ جیل میں 190 ملین پاؤنڈ کیس کی سماعت کے بعد وہاں موجود مقامی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران کی۔ وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا نے وہاں موجود دو نمائندوں سے اس گفتگو کی تصدیق کی ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت صدیقی نے بھی جو الزامات لگائے تھے اس پر جنرل فیض کا نام ہو یا کسی اور کا اس معاملے کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

زہر خورانی کے الزامات

بشریٰ بی بی کی جانب سے اُنہیں زہر دینے جانے کے الزام کو دہراتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ بشریٰ بی بی کے کھانے میں ٹوائلٹ کلینر ملایا جا رہا ہے۔ عدالت نے بشریٰ بی بی کے مکمل طبی معائنے کے لیے درخواست دینے کی ہدایت کی ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے جو خط لکھا یہ سب کو پتا ہے کہ جب سے رجیم چینج ہوئی یہ بات تب سے چل رہی ہے۔ ججز پیغام دیتے ہیں کہ وہ بے بس ہیں۔

سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ "میرے خلاف کیس کے دوران احتساب عدالت کے سابق جج محمد بشیر دباؤ کی وجہ سے پانچ مرتبہ جیل کے اسپتال گئے، عدت میں نکاح کا کیس سننے والے جج قدرت اللہ نے وکلا کو بتایا کہ اس وقت تک بیٹے کا ولیمہ نہیں کر سکتا جب تک فیصلہ نہ سناؤں۔ سائفر کیس میں میرا 342 کا بیان ہو رہا تھا جج 10 منٹ کے لیے باہر گئے اور واپس آتے ہی فیصلہ سنا دیا۔ تمام ججز باہر سے کنٹرول ہو رہے تھے۔

عمران خان نے کہا کہ میں نے عارف علوی کے ذریعے جنرل عاصم منیر کو پیغام بھیجا تھا کہ مجھے لندن پلان کا علم ہے، موجودہ چیف الیکشن کمشنر لندن پلان پر عمل درآمد کے مرکزی کردار ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان کی فوج اور ریاستی ادارے عمران خان کے اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی عمران خان کے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں من گھڑت قرار دے چکا ہے۔

'ججز کا خط سنجیدہ معاملہ ہے'

جسٹس (ر) تصدق جیلانی کی طرف سے کمیشن کی سربراہی سے انکار کے معاملے پر عمران خان نے کہا کہ شکر ہے کہ تصدق جیلانی نے کمیشن کی سربراہی سے انکار کیا اور سپریم کورٹ کا سات رکنی بینچ بنا دیا گیا۔

سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ججز کا خط لکھنا سنجیدہ معاملہ ہے اس پر فل کورٹ کو سماعت کرنی چاہیے تھی، تاہم سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کا بننا کمیشن بننے سے بہتر ہے۔ ججز کو آواز اٹھانے پر سیلوٹ کرتا ہوں امید کرتا ہوں کہ وہ ملک کو بچا لیں۔

شوکت عزیز صدیقی کیس عمران خان کے اپنے دور میں ہونے کے حوالے سے ایک سوال پر عمران خان نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں گیا تھا اس لیے ہم خاموش رہے۔ ججز کے خط کی انکوائری کا آغاز شوکت عزیز صدیقی کے الزامات یا اس سے بھی پہلے سے شروع کر لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

عمران خان نے کہا کہ جنرل فیض ہو یا کوئی اور تحقیقات ہونی چاہیے، جنرل فیض کی تقرری میں نے نہیں کی تھی۔ جنرل باجوہ نے ہمیں واضح طور پر کہا تھا کہ اگر چپ نہ بیٹھے تو کیسز بنائے جائیں گے اور سزائیں بھی ملیں گی۔

عدالت کا بشریٰ بی بی کے طبی معائنہ سے متعلق درخواست دینے کی ہدایت

اڈیالہ جیل میں 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس پر سماعت کے دوران عمران خان نے احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بشری بی بی کو بنی گالہ میں زہر دیا گیا ہے۔ بشریٰ بی بی کی جلد اور زبان پر نشانات ہیں، بشریٰ بی بی کا مکمل میڈیکل چیک اپ کرنے کا حکم دیا جائے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمیں شک ہے کہ بشریٰ بی بی کو زہر دینے کی کوشش کی گئی ہے مجھے پتا ہے اس کے پیچھے کون ہے، اگر بشریٰ بی بی کو کچھ ہوتا ہے تو اس کے ذمہ دار جنرل عاصم منیر ہوں گے۔

عمران خان نے کہا کہ بشریٰ بی بی کا طبی معائنہ شوکت خانم کے ڈاکٹر سے کروانے کا حکم دیا جائے۔ بشری بی بی کا معائنہ ایک جونیئر ڈاکٹر سے کروایا گیا جس پر ہمیں اعتبار نہیں۔

احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے عمران خان کو بشری بی بی کے طبی معائنے سے متعلق تفصیلی درخواست دینے کی ہدایت کر دی۔

بشریٰ بی بی کی اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات چیت

اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران بشریٰ بی بی نے ایک وی لاگر (سمیع ابراہیم) سے علیحدگی میں بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ میڈیا نمائندگان کے سامنے وی لاگر سے بات نہیں کرنا چاہتی لیکن جیل انتظامیہ نے علیحدگی میں بات کروانے سے معذرت کر لی۔

جیل انتظامیہ کی معذرت کے بعد بشری بی بی نے میڈیا کے سامنے ہی بات چیت شروع کی اور صحافیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے وی لاگر سے مخاطب رہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر "میں نے جو خان صاحب کی زندگی کو درپیش خطرات پر بات کی میڈیا نے اسے رپورٹ نہیں کیا، اس وقت میرے امریکی ایجنٹ ہونے سے متعلق پارٹی میں باتیں پھیلائی جا رہی ہیں۔"

بشریٰ بی بی کا کہنا تھا کہ "شب معراج کے روز میرے کھانے میں ٹوائلٹ کلینر کے تین قطرے ملائے گئے، تحقیق سے پتا چلا کہ ٹوائلٹ کلینر سے ایک ماہ بعد طبیعت زیادہ خراب ہوتی ہے، مجھے آنکھوں میں سوجن ہو جاتی ہے سینے اور معدے میں تکلیف ہوتی ہے، کھانا اور پانی بھی کڑوا لگتا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ مجھے بنی گالہ میں باعزت طریقے سے رکھا گیا ہے، پہلے کھڑکیاں بند رکھی جاتی تھی اب کچھ دیر کے لیے کھول دی جاتی ہیں۔

بشریٰ بی بی سے سوال کیا گیا کہ پہلے آپ کی جانب سے بیان آیا کہ شہد میں کچھ ملایا گیا اب کہا جا رہا ہے کہ ٹوائلٹ کلینر کھانے میں ڈالا گیا۔ جس پر انہوں نے کہا کہ پہلے شہد میں بھی کچھ ملایا گیا تھا اب کھانے میں بھی ٹوائلٹ کلینر ملایا گیا۔

دریں اثنا 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل ریفرنس کی سماعت چھ اپریل تک ملتوی کر دی گئی، سماعت کے دوران نیب کی جانب سے پیش کیے گئے ایک گواہ کا بیان ریکارڈ اور وکلا صفائی نے جرح بھی مکمل کر لی۔

نیب کے پراسیکیوٹر امجد پرویز اور سردار مظفر عباسی ٹیم کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی کے وکلا ظہیر عباس چودھری، عثمان گل اور بیرسٹر علی ظفر و دیگر پیش ہوئے۔