مغربی حقوق نسواں پر عمران خان کے بیان سے ایک نئی بحث کا آغاز

فائل فوٹو

فیمنزم کا مطلب عورت کا اپنے جسم اور زندگی پر مکمل اختیار اور مرضی ہے۔ اس بات کو جاننا چاہیئے کہ عورتوں کا بغیر کسی اجرت یا معاوضے کے گھریلو کاموں کی بھی معاشی طور پر بہت اہمیت ہے۔

ملک میں الیکشن کا موسم ہے اور تحریک انصاف کے سربراہ دیگر جماعتوں کی طرح انتخابی مہم میں مصروف ہیں ۔ اسی سلسلے میں انہوں نے پچھلے ہفتے ایک نجی ٹی وی پر امبر رحیم شمسی کے ساتھ انٹرویو میں ایک ایسا جملہ کہہ دیا جس سے سوشل میڈیا پر ایک سنجیدہ بحث شروع ہو گئی۔ عمران خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’مغربی فیمینزم کی تحریک نے ماں کے کردار کو نقصان پہنچایا ہے‘۔

اس انٹرویو کے بعد سوشل میڈیا اور اخبارات میں جنسی مساوات اور فیمینزم پر دلچسپ بحث کا آغاز ہوا۔ ہمیشہ کی طرح سماجی کارکنان اور حقوق نسواں کے علمبردار خواتین وحضرات نے اس مکالمے میں بھرپور حصہ لیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے اس پر قائد اعظم محمد علی جناح کا قول ٹویٹ کیا کہ دنیا کی کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں حصہ نہ لیں۔ عورتوں کو گھر کی چار دیواری میں بند کرنے والے انسانیت کے مجرم ہیں۔

سوشل میڈیا پر سابق وفاقی وزیر اور پاکستان پیپلز پارٹی کی راہنما شیری رحمان کہتی ہیں کہ فیمنزم کے ذریعے عورتوں کی زندگی تبدیل ہوئی ہے۔ انہیں اپنی مرضی سے زندگی جینے کا اختیار ملا ہے۔ اس نے صنفی مساوات کو جائز قرار دیا ہے۔ بہتر اجرت، زچگی کی رخصت، برابر کا معاوضہ، اور معاشرے میں مساوی مقام کے إمكانات پیدا کئے ہیں۔ اس سے ماں کا درجہ کیسے کمتر ہوتا ہے؟

محمد وقاص اقرار کہتے ہیں کہ عمران خان کے فیمنزم اور مامتا پر بیان سے ذہن اس جانب جاتا ہے کہ ہم اولاد کی پرورش کی ساری ذمہ داری ماں پر لاد دیتے ہیں اور باپ کے کردار کو فراموش کر دیتے ہیں جب کہ باپ کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہے۔​

ریسیرچر ملیحہ منصور کہتی ہیں کہ ملازمت کرنے والی عورتیں اور اپنے بچوں کی اکیلے پرورش کرنے والی مائیں جو اپنے خاندان کی مدد کر رہی ہیں انہیں مزید حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔

صحافی صباحت زکریا نے کہا کہ صنفی بنیادوں پر ایک کمتر شہری کے طور پر ایسے خيالات میرے لئے گہری تشویش کا باعث ہیں۔ ایسے تصورات جن میں عورت کی واحد شناخت محض ماں قرار دی جاتی ہے، عزت کے نام پر قتل جیسے اقدامات کی توجیح کا باعث بنتے ہیں۔ کیونکہ پھر عورت کی دیگر تمام شناختوں کو مٹانا واجب ہو جاتا ہے ۔ چاہے پھر وہ جبر کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔

اسی طرح سوشل میڈیا صارف سیرافینا کہتی ہیں کہ فیمنزم نے کبھی بھی مامتا کے مقام کو کمتر خیال نہیں کیا۔ اس کے برعکس یہ فیمنسٹس ہیں جنہوں نے ہر ملک میں تنخواہ کے ساتھ رخصت اور ایسے قوانین کے لئے کام کیا ہے جس سے ماؤں کو مزیدتحفظ ملتا ہے تاکہ انہیں بچوں کی پرورش کی وجہ سے کام نہ چھوڑنا پڑے۔

سوشل میڈیا صارف عمر شاہد اس تنقید سے متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان نے محض فیمنزم کے مغربی تصور سے عدم اتفاق ظاہر کیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ خواتین کے برابر حقوق پر یقین نہیں رکھتے۔ ایک عورت مخالف شخص کبھی بھی عورتوں کو اختیار دینے کے اقدامات کو اپنے پارٹی منشور کا حصہ نہ بناتا۔

صحافی مہر تارڑ اسی بات کو بڑھاتے ہوئے لکھتی ہیں کہ صرف اس لئے کہ بعض تصورات اور تحاریک پر عمران خان کے خيالات قدامت پرست ہیں ہم انہیں عورت دشمن قرار نہیں دے سکتے۔

ٹویٹر یوزر ایم بی زیڈ لکھتے ہیں کہ یہ بہت عجیب ہے کہ لوگ عمران خان کو فیمنزم پر لیکچر دے رہے ہیں جب کہ حالیہ انتخابات کے لئے عورتوں کو سب سے زیادہ ٹکٹیں عمران خان کی پارٹی نے دی ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ صرف باتیں بنانے کی بجائے عمل کے ذریعے مساوات کو ثابت کرنا زیادہ اہم ہے۔

ایسے میں جواد یوسفزئی فیمنزم کا پرچار کرنے والے بعض سماجی کارکنان کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ لوگ عمران خان کی موجودہ زوجہ کے برقع پہننے پر کیوں اعتراض کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کیا یہ منافقت نہیں؟ کیا یہ مناسب نہیں کہ جو جیسے کپڑے پہننا چاہتا ہے، اسے اس کی اجازت ہو؟

اس مکالمے نے سوشل میڈیا سے نکل کر مقامی وبین الاقوامی اخبارات اور نیوز ویب سائٹس پر بھی اپنی جگہ بنا لی ہے۔

اختتام اگر امبر شمسی کے ان الفاظ میں کیا جائے جو انہوں انگریزی ویب سائٹ’ he quintt’ میں لکھے تو بے جا نہ ہوگا۔ امبر شمسی، جن کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے یہ بیان دیا تھا، وہ لکھتی ہیں کہ فیمنزم کا مطلب عورت کا اپنے جسم اور زندگی پر مکمل اختیار اور مرضی ہے۔ اس بات کو جاننا چاہیئے کہ عورتوں کا بغیر کسی اجرت یا معاوضے کے گھریلو کاموں کی بھی معاشی طور پر بہت اہمیت ہے۔ اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ یہ تفویض کردہ صنفی کردار سماج نے خود بنائے ہیں تاکہ عورتوں کو گھروں اور باورچی خانے میں قید کیا جا سکے۔ ایک عورت ایک ماں، بہن، بیوی اور بیٹی سے بڑھ کر ہے۔ یہ رشتے محض اس کی شناخت نہیں ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک عورت کو شعوری اور سماجی زندگی کا حصہ بننے کا بھی پورا حق ہے۔