اُنھوں نے اپنے اُن الزامات کو دہرایا کہ گذشتہ پانچ برسوں میں مہنگائی میں بےانتہا اضافہ ہوا ہے، بیروزگاری بڑھی ہے، لا اینڈ آرڈر اور بدعنوانی جاری رہی ہے۔ إِس طرح، دہشت گردی بھی اپنی جگہ موجود ہے
واشنگٹن —
پاکستان تحریک ِانصاف کے چیرمین، عمران خان نے کہا ہے کہ اُن کی پارٹی کی سونامی کا زور نہیں ٹوٹا، اور بقول اُن کے، اِس کا مظاہرہ 23مارچ کو لاہور میں مینارِ پاکستان کے سامنے ایک عام اجتماع میں پھر دیکھنے میں آئے گا۔
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ یہ سونامی جاری رہے گا۔ لاہور کے اجلاس میں، اُن کے مطابق، 80ہزار پارٹی کارکن اپنی ذمہ داریوں کا حلف اُٹھائیں گے۔
عمران خان نے یہ بھی کہا کہ عام جلسے میں وہ ’ایک نئے پاکستان‘ کے لیے اپنی پارٹی کے منشور کے اہم نکات کا بھی اعلان کریں گے، جس کا خواب بانیٴ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ21مارچ کو اُن کی پارٹی کے انتخابات مکمل ہو جائیں گے اور سنٹرل کمیٹی پارٹی کی قیادت کا چناؤ کرے گی۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ پارٹی کے اندر تمام عہدیداران پارٹی کے سامنے جوابدہ ہوں گے، جن میں وہ خود بھی شامل ہوں گے۔
عمران خان نے کہا کہ دو مرتبہ سے زیادہ کوئی بھی پارٹی کا چیرمین نہیں ہوا کرےگا۔
اُنھوں نے اپنے اُن الزامات کو دہرایا کہ گذشتہ پانچ برسوں میں مہنگائی میں بےانتہا اضافہ ہوا ہے، بیروزگاری بڑھی ہے، لا اینڈ آرڈر اور بدعنوانی جاری رہی ہے۔ إِس طرح، دہشت گردی بھی اپنی جگہ موجود ہے۔
ایک سوال کے جواب مین عمران خان نے کہا کہ اِن مسائل کا حل قانون کی حکمرانی اور قانون کے مؤثر نفاذ، ٹیکسوں کی بہتر وصولی اور اُن کی دیانت دارانہ استعمال میں مضمر ہے۔ ٹیکسوں سے وصول کی گئی رقم ذاتی آسائشوں اور سہولتوں پر نہیں بلکہ عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہونی چاہیئے۔
اُنھوں نے توجہ دلائی کہ احتساب سب کے لیے لازم ہے اور اس کا آغاز اوپر سے ہونا ضروری ہے۔
عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ اُن کی پارٹی بدعنوانی کے خلاف جامع پالیسی اپنائے گی اور یہ کہ اس سلسلے میں ایک پالیسی پیپر پہلے ہی تیار کیا جاچکا ہے۔
ممکنہ انتخابی اتحاد کے حوالےسے ایک سوال کےجواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ اُن کی پارٹی ایسی جماعتوں سے اتحاد نہیں کرے گی جو پانچ سال تک اقتدار میں رہی ہیں۔
ہم اپنے پارٹی پلیٹ فارم سے ہی انتخاب لڑیں گے۔ تاہم، ایسی سیاسی پارٹیوں سے سیٹوں پر ’ایڈجسٹ منٹ‘ ہو سکتی ہے جو اسمبلیوں میں موجود نہیں رہیں۔
اُن کے الزامات کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ وہ طالبان کےلیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، عمران خان نےکہا کہ اُنھوں نےہمیشہ کہا ہے کہ مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے۔ یہ مسئلہ مکالمے سے ہی حل ہوگا۔
اُنھوں نے توجہ دلائی کہ یہی بات اب عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) اور آل پارٹیز کانفرنسوں میں بھی دہرائی گئی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ فوجی کاررائی سے جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ اس کا الٹا نقصان ہوتا ہے۔ اُنھوں نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انگریز بھی 80سال پھنسا رہا اور اب ہماری ایک لاکھ 40ہزار افواج بھی نو سال سے پھنسی ہوئی ہیں۔
اُن کے بقول، پاکستان کا ہر مہینے 90ارب روپیہ اس جنگ پر ضائع ہو رہا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ، اُن کے اپنے الفاظ میں، ہم امریکہ کی جنگ سےخود کو الگ کریں گے اور قبائلی علاقے کے لوگوں کے ذریعے بات چیت کریں گے اور سچائی اور مفاہمت سے معاملے کو حل کریں گے۔
خارجہ پالیسی کے حوالے سے عمران خان نے ایک سوال کے جواب میں اپنی پارٹی کی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کسی سے امداد نہیں لے گا اور اسے بجٹ کو متوازن کرتے ہوئے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے۔’ہم اپنے تمام پڑوسیوں سے امن چاہتے ہیں، اور امریکہ سے بھی دوستی چاہیں گے‘۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ، ایسے تعلقات کے ہم خواہشمند نہیں ہوں گے کہ، اُن کے اپنے الفاظ میں، ’امداد لے کر اُن کی جنگ لڑیں‘۔
یاد رہے کہ پاکستان کے سول اور فوجی عہدیدار بارہا اس بات کا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کے اپنے مفاد میں اور اس کی اپنی بقا کے لیے ہے جس سے ملک میں نہ صرف بھاری مالی نقصان ہورہا ہے، بلکہ بے گناہ جانیں بھی ضائع ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، بین الاقوامی سطح پر ملک کا وقار بھی مجروح ہو رہا ہے۔
تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے کلک کیجئیے:
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ یہ سونامی جاری رہے گا۔ لاہور کے اجلاس میں، اُن کے مطابق، 80ہزار پارٹی کارکن اپنی ذمہ داریوں کا حلف اُٹھائیں گے۔
عمران خان نے یہ بھی کہا کہ عام جلسے میں وہ ’ایک نئے پاکستان‘ کے لیے اپنی پارٹی کے منشور کے اہم نکات کا بھی اعلان کریں گے، جس کا خواب بانیٴ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ21مارچ کو اُن کی پارٹی کے انتخابات مکمل ہو جائیں گے اور سنٹرل کمیٹی پارٹی کی قیادت کا چناؤ کرے گی۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ پارٹی کے اندر تمام عہدیداران پارٹی کے سامنے جوابدہ ہوں گے، جن میں وہ خود بھی شامل ہوں گے۔
عمران خان نے کہا کہ دو مرتبہ سے زیادہ کوئی بھی پارٹی کا چیرمین نہیں ہوا کرےگا۔
اُنھوں نے اپنے اُن الزامات کو دہرایا کہ گذشتہ پانچ برسوں میں مہنگائی میں بےانتہا اضافہ ہوا ہے، بیروزگاری بڑھی ہے، لا اینڈ آرڈر اور بدعنوانی جاری رہی ہے۔ إِس طرح، دہشت گردی بھی اپنی جگہ موجود ہے۔
ایک سوال کے جواب مین عمران خان نے کہا کہ اِن مسائل کا حل قانون کی حکمرانی اور قانون کے مؤثر نفاذ، ٹیکسوں کی بہتر وصولی اور اُن کی دیانت دارانہ استعمال میں مضمر ہے۔ ٹیکسوں سے وصول کی گئی رقم ذاتی آسائشوں اور سہولتوں پر نہیں بلکہ عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہونی چاہیئے۔
اُنھوں نے توجہ دلائی کہ احتساب سب کے لیے لازم ہے اور اس کا آغاز اوپر سے ہونا ضروری ہے۔
عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ اُن کی پارٹی بدعنوانی کے خلاف جامع پالیسی اپنائے گی اور یہ کہ اس سلسلے میں ایک پالیسی پیپر پہلے ہی تیار کیا جاچکا ہے۔
ممکنہ انتخابی اتحاد کے حوالےسے ایک سوال کےجواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ اُن کی پارٹی ایسی جماعتوں سے اتحاد نہیں کرے گی جو پانچ سال تک اقتدار میں رہی ہیں۔
ہم اپنے پارٹی پلیٹ فارم سے ہی انتخاب لڑیں گے۔ تاہم، ایسی سیاسی پارٹیوں سے سیٹوں پر ’ایڈجسٹ منٹ‘ ہو سکتی ہے جو اسمبلیوں میں موجود نہیں رہیں۔
اُن کے الزامات کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ وہ طالبان کےلیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، عمران خان نےکہا کہ اُنھوں نےہمیشہ کہا ہے کہ مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے۔ یہ مسئلہ مکالمے سے ہی حل ہوگا۔
اُنھوں نے توجہ دلائی کہ یہی بات اب عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) اور آل پارٹیز کانفرنسوں میں بھی دہرائی گئی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ فوجی کاررائی سے جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ اس کا الٹا نقصان ہوتا ہے۔ اُنھوں نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انگریز بھی 80سال پھنسا رہا اور اب ہماری ایک لاکھ 40ہزار افواج بھی نو سال سے پھنسی ہوئی ہیں۔
اُن کے بقول، پاکستان کا ہر مہینے 90ارب روپیہ اس جنگ پر ضائع ہو رہا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ، اُن کے اپنے الفاظ میں، ہم امریکہ کی جنگ سےخود کو الگ کریں گے اور قبائلی علاقے کے لوگوں کے ذریعے بات چیت کریں گے اور سچائی اور مفاہمت سے معاملے کو حل کریں گے۔
خارجہ پالیسی کے حوالے سے عمران خان نے ایک سوال کے جواب میں اپنی پارٹی کی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کسی سے امداد نہیں لے گا اور اسے بجٹ کو متوازن کرتے ہوئے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے۔’ہم اپنے تمام پڑوسیوں سے امن چاہتے ہیں، اور امریکہ سے بھی دوستی چاہیں گے‘۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ، ایسے تعلقات کے ہم خواہشمند نہیں ہوں گے کہ، اُن کے اپنے الفاظ میں، ’امداد لے کر اُن کی جنگ لڑیں‘۔
یاد رہے کہ پاکستان کے سول اور فوجی عہدیدار بارہا اس بات کا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کے اپنے مفاد میں اور اس کی اپنی بقا کے لیے ہے جس سے ملک میں نہ صرف بھاری مالی نقصان ہورہا ہے، بلکہ بے گناہ جانیں بھی ضائع ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، بین الاقوامی سطح پر ملک کا وقار بھی مجروح ہو رہا ہے۔
تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے کلک کیجئیے:
Your browser doesn’t support HTML5