بھارتی کنڑول کے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے موقع پر جہان پاکستان بھر میں جلسے اور ریلیاں ہوئیں وہاں امریکہ کے ایک اخبار نیویارک ٹائمز میں وزیر اعظم عمران خان کا ایک مضمون بھی شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے اقوام عالم کی توجہ جنوبی ایشیا کے اس اہم تنازع کی جانب مبذول کرائی ہے جو کسی جانب کی معمولی سی غلطی سے آتش فشان کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ دنیا کو کشمیر کے تنازع کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ دو جوہری ملکوں کے درمیان ایک ایسا تنازع ہے جو ایک خطرناک صورت حال کی جانب دھکیل سکتا ہے جس کے اثرات سے پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی کمیونٹی کو تجارتی اور کاروباری مفادات سے باہر نکل کر اس تنازع کے متعلق سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دوسری جنگ عظیم کیسے شروع ہوئی تھی۔ ایک ویسا ہی خطرہ ایک بار پھر دنیا پر منڈلا رہا ہے، لیکن یہ ماضی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس خطرے پر جوہری سایہ بھی ہے۔
عمران خان نے اپنے مضمون میں کہا ہے کہ جنوبی ایشیا سے غربت دور کرنے، بے روزگاری پر قابو پانے اور پانی اور خوراک جیسے بنیادی اہمیت کے مسائل حل کرنے کے لیے خطے کا امن بہت ضروری ہے جس کا تعلق تقسیم ہند سے چلے آ رہے کشمیر کے تنازع سے جڑا ہے۔
انہوں نے اس سلسلے میں ماضی میں کی جانے والی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی لیڈرشپ کا بے لچک انداز اس راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنا رہا ہے۔
عمران خان نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے، تجارت کے فروغ اور کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کے لیے اپنی حکومت کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے منفی ردعمل نے ان کوششوں کو ناکام بنا دیا۔
اپنے مضمون میں عمران خان نے لکھا ہے کہ بھارتی انتخابات سے چند ماہ پہلے 14 فروری کو ایک کشمیری نوجوان نے بھارتی سیکورٹی فورسز کے خلاف خودکش حملہ کیا تو دہلی نے اس کا فوری الزام پاکستان پر لگا دیا۔ ہم نے ثبوت مانگے تو انہوں نے اپنے جیٹ طیارے بھیج دیے۔
پانچ اگست کو مودی کی حکومت نے دہلی کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرے کشمیر میں کرفیو لگا دیا۔ اس طرح اس نے کشمیر پر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں اور پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ سمجھوتے کی بھی خلاف ورزی کی۔
عمران خان نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں کہا ہے کہ بھارت نے کشمیر میں بڑی تعداد میں اپنی فوج دستے تعینات کر دیے ہیں اور کشمیریوں کو اپنے گھروں میں مقید کر دیا گیا ہے۔ ان کے فون منقطع اور انہیں سے انٹرنیٹ اور ٹیلی وژن تک رسائی سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ان کے اپنے پیاروں اور دنیا سے رابطے کٹ گئے ہیں۔
اور یہاں تک کہ بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے پاکستان کو ایٹمی جنگ تک کی دھمکی بھی دی ہے۔
عمران خان نے کہا ہے کہ مذاكرات کے ذریعے کشمیریوں کے عشروں سے جاری مصائب کا ایک قابل عمل حل ڈھونڈا جا سکتا ہے اور خطے کو ایک پائیدار امن کی جانب بڑھایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ مذاكرات صرف اسی صورت شروع ہو سکتے ہیں جب بھارت کشمیر پر اپنے غیر قانونی قبضے کے دعوے سے پیچھے ہٹ جائے، کرفیو اور لاک ڈاؤن کو ختم کیا جائے اور فوجی دستوں کو اپنی بیرکوں میں واپس بھیج دیا جائے اور اس مسئلے کے اہم فریق کشمیریوں کو بھی مذاکرات میں شریک کیا جائے۔
دوسری جانب بھارت کا موقف یہ ہے کہ کشمیر اس کا ناقابل تنسیخ حصہ ہے۔