پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے متنازع جموں و کشمیر پر کیے گئے حالیہ اقدامات کے نتیجے میں اسلام آباد اور نئی دہلی کے لیے دو طرفہ بات چیت سے آگے بڑھنا اب ممکن نہیں رہا ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستان کرتار پور راہداری کے منصوبے کی تکمیل اور اسے کھولنے کے عزم پر قائم ہے۔
کرتار پور راہداری سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ کرتار پور رہداری سے متعلق دونوں ملکوں کی تکنیکی ماہرین کا اجلاس 30 اگست کو پاک بھارت سرحد پر ہوگا۔
ترجمان نے یہ واضح کیا کہ پاکستان کرتار پور راہداری کے تعمیری کام کو مکمل کر کے اسے سکھ یاتریوں کے لیے کھولنے کے عزم پر قائم ہے، جس کا اعلان پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کر چکے ہیں۔
کرتار پور رہداری سے متعلق تیکنیکی اجلاس ایک ایسے وقت ہوگا جب بھارت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بدل دی ہے۔ اس اقدام کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو محدود کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان سمجھوتہ ایکسپریس بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یاد رہے کہ پاکستان نے گزشتہ سال سکھ برادری کے لیے کرتار پور راہداری کھولنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد دونوں ممالک میں سکھوں کے مذہبی پیشوا بابا گرو نانک کے 550 ویں یومِ پیدائش کے موقع پر کرتار پور راہداری منصوبہ مکمل کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔
‘عالمی بردادری جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے’
دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری بھارتی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی برداری سے اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کا مسلسل 25 ویں روز بھی بیرونی دنیا سے رابطہ معطل ہے۔ وادی میں ناکہ بندی جاری ہے اور بین الاقوامی برادری کی مذمت کے باوجود بھارت کے غیر انسانی اقدامات کا جاری ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ بھارت بین الاقوامی برداری کو گمراہ کرنا چھوڑ کر متنازع علاقے سے متعلق اپنی ہٹ دھرمی کی پالیسی جاری رکھنے کی بجائے معروضی حالات اور کشمیریوں کی خواہشات کو تسلیم کرے۔
یاد رہے کہ کہ بھارتی حکومت نے پانچ اگست کو جموں و کشمیر کی متنازع حیثیت کو ختم کرنے کے بعد علاقے میں ناصرف سیکورٹی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ بلکہ کئی دیگر غیر معمولی اقدامات بھی کیے ہیں، جنھیں نئی دہلی امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔
'دوطرفہ بات چیت سے آگے بڑھنا ممکن نہیں رہا'
ترجمان نے کہا کہ بھارت دنیا بھر میں جموں و کشمیر کو دو طرفہ معاملہ قرار دیتا ہے، جبکہ ملک کے اندر وہ اسے اندرونی معاملہ گردانتا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ بھارت اپنے مؤقف کو تبدیل کرتا آرہا ہے۔ پانچ اگست کے بعد بھارت نے جو مؤقف اختیار کیا ہے۔ اب نئی دہلی کی طرف سے اس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔
ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ جموں و کشمیر سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ایک تصفیہ طلب تنازع ہے۔ اور پاکستان کے نزدیک اس معاملے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق کیا جا سکتا ہے۔
ترجمان محمد فیصل نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے بھارت کے ساتھ تمام معاملات پر دو طرفہ بات چیت کی حمایت کرتا رہا ہے۔ لیکن، بھارت اس سے انکار کرتا رہا ہے۔ اس لیے جموں و کشمیر پر بھارت کے حالیہ اقدامات کے بعد اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان دو طرفہ بات چیت سے آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔