پاکستان کے صحافیوں اور صحافتی تنظیموں نے وزیر اعظم عمران خان کے ملک میں ذرائع ابلاغ کی آزادی کے بارے میں دیے گئے بیان کو غیر حقیقت پسندانہ اور مایوس کن قرار دیا ہے۔
صحافیوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا بیان زمینی حقائق کے برخلاف ہے کیونکہ ملک میں ذرائع ابلاغ کو تاریخ کی بدترین قدغنوں اور غیر اعلانیہ سینسر شپ کا سامنا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ کے اپنے دورے میں ایک امریکی تھنک ٹینک یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ فار پیس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں ذرائع ابلاغ آزاد ہی نہیں بلکہ کنٹرول سے باہر ہیں، جسے ریگولیٹر ادارے کے ذریعے ضبط میں لایا جارہا ہے اور یہ سینسر شپ نہیں ہے۔
وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں 70 کے قریب ٹی وی چینل ہیں اور ان میں صرف تین اشاعتی اور نشریاتی اداروں کو مسائل ہیں۔
صحافیوں کے حقوق کی عالمی تنظیم 'رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز' کے پاکستان میں نمائندے اقبال خٹک کہتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا اب محض حکومت کی تشہیر اور پراپیگنڈے کے لیے آزاد رہ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت میں مخالفانہ نقطہ نظر کو برداشت نہ کرنے کا یہ عالم ہے کہ حزب اختلاف کے جلسے دکھانے والے ٹی وی چینل کو آف ایئر کر دیا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غیر اعلانیہ سینسر شپ کے نفاذ کے بعد اب صحافیوں کو سوشل میڈیا پر تبصرہ کرنے پر بھی سائبر کرائم کے تحت مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اقبال خٹک نے کہا کہ پاکستان میں صحافت پر قدغنوں، سینسر شپ اور صحافیوں کو اپنا پیشہ وارانہ کام آزادی سے نہ کرنے دینے پر دنیا بھر میں تشویش پائی جاتی ہے اور بین الاقوامی صحافتی تنظیمیں یہ تسلیم کر چکی ہیں کہ پاکستان میں صحافی گھٹن کا شکار ہیں۔
تجزیہ نگار اور حالات حاضرہ سے متعلق ایک ٹی وی شو کی میزبان منیزے جہانگیر کہتی ہیں کہ صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان کی طبیعت میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور ذرائع ابلاغ کی جانب دونوں کا رویہ ایک جیسا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کا میڈیا کی آزادی کے سلسلے میں بیان حقائق کے برخلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے آزادی رائے کا گلہ گھونٹنے کے لیے صحافیوں پر دہشت گردی کے مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔ ایسے میں دنیا کیسے یہ مان سکتی ہے کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے۔
منیزے جہانگیر کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ دورہ واشنگٹن سے واپسی پر میڈیا کی مزید شامت آنے والی ہے اور پاکستان آزادی صحافت کے سیاہ دور کی طرف جا رہا ہے۔
ملک میں صحافیوں کے حقوق کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کے صدر افضل بٹ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے دانستہ یا لاعلمی میں ہمارے موقف کی حمایت کر دی ہے کہ ذرائع ابلاغ کو پابندیوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو تاریخ کی بدترین سینسر شپ کا سامنا ہے جس کے خلاف صحافی ملک گیر تحریک چلا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں اپوزیشن جماعتیں میڈیا سینسر شپ کو اظہار رائے پر قدغن کی بدترین صورت قرار دیتی ہیں اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد نے میڈیا پر غیر اعلانیہ پابندیوں کے معاملے میں عدالت سے رُجوع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اپوزیشن اتحاد کا موقف ہے کہ آزادی اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کی ضمانت آئین پاکستان میں دی گئی ہے، جب کہ موجودہ حکومت میڈیا سینسر شپ کے ذریعے شہریوں کو اپنے بنیادی حقوق سے محروم کر رہی ہے، جس کی کسی جمہوری ملک میں گنجائش نہیں ہے۔
پاکستان میں اگرچہ میں امن و امان کی صورت حال میں بہتری آئی ہے، تاہم صحافیوں اور نشریاتی اداروں کے لیے خطرات اور مختلف حلقوں کی طرف سے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے اور رپورٹر ود آؤٹ بارڈرز کی طرف سے جاری ہونے والی حالیہ رپورٹ کے مطابق آزادی صحافت کے حوالے سے پاکستان 180 ملکوں کی فہرست میں 142ویں نمبر پر ہے۔