پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ریکوڈک کے معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کی ہدایت کی ہے۔ حکام کے مطابق کمیشن اس بات کا تعین کرے گا کہ عالمی ٹربیونل کے فیصلے میں ملک کو جرمانہ کیوں ہوا اور اس کے ذمہ دار کون ہیں۔
پاکستان کی حکومت نے ریکوڈک کیس سے متعلق عالمی ٹربیونل کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ تاہم ٹیتھیان کمپنی کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا بھی خیر مقدم کیا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق اٹارنی جنرل دفتر اور حکومت بلوچستان عالمی عدالت کے اس فیصلے کے قانونی اورمالی اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں. یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حکومت پاکستان مشاورت سے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیکر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔
سرمایہ کاری سے متعلق عالمی عدالت نے ہفتے کے روز ریکوڈک ہرجانہ کیس میں فیصلہ سنایا تھا کہ پاکستان کو چلی اور کینیڈا کی مائننگ کمپنی ٹیتھیان کو تقریباً 6 ارب ڈالر کا ہرجانہ ادا کرنا ہوگا۔
فیصلے کے مطابق پاکستان کی حکومت کو معاہدے کی پاسداری نہ کرنے پر 4 ارب ڈالر ہرجانہ جبکہ سود اور دیگر اخراجات کی مد میں پونے دو ارب ڈالر ادا کرنے ہوں گے جو کہ مجموعی طور پر تقریباً 6 ارب ڈالر بنتے ہیں۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری نے عالمی عدالت کے فیصلے پر ردعمل میں کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے فیصلوں کی قیمت پاکستان مسلسل ادا کر رہا ہے۔
اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایک اعلیٰ سطحی کمیشن کے ذریعے سابق چیف جسٹس کے دور میں کئے جانے والے فیصلوں کا ازسر نو جائزہ لینا چاہئے جن سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینٹر کامران مرتضی کہتے ہیں کہ مشکل معاشی حالات میں عالمی عدالت کی جانب سے بھاری جرمانے سے ملکی معیشت پر شدید دباؤ پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کیا۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ تمام ریاستی ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں۔
ریکوڈک منصوبہ تھا کیا؟
ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی کے ایک قصبے کا نام ہے جہاں حکام کے مطابق اربوں ڈالر کی قیمتی دھاتیں دریافت ہو چکی ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی مالیت 260 ارب ڈالر سے زائد ہے۔
ٹیتھیان کمپنی کو 1993ء میں بلوچستان کے علاقے چاغی میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا لائسنس جاری کیا گیا تھا۔ لیکن پاکستان کے سابق چیف جسٹس، افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2011ء میں بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کے لیے ٹتھیان کاپر کمپنی کو دیا جانے والا لائسنس منسوخ کر دیا تھا۔
ٹتھیان کمپنی نے سنہ 2012 میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف عالمی بینک کے ثالثی ٹریبونل سے رجوع کیا تھا اور پاکستان سے 16 ارب ڈالر ہرجانہ وصول کرنے کا دعویٰ دائر کیا تھا۔