پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے کامیاب نہ ہونے کا الزام پاکستان پر لگانا غیر منصفانہ ہے۔
ان کے بقول پاکستان نے 70 ہزار جانوں کی قربانی دی ہے جبکہ 100 ارب ڈالرز کا نقصان برداشت کیا۔
عمران خان نے روسی نشریاتی ادارے ’آر ٹی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں پاکستان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
عمران خان کے بقول ’ہم نے 70 ہزار جانیں گنوائیں اور 100 ارب ڈالر کا نقصان بھی برداشت کیا۔ پاکستان کو امریکہ کی اس جنگ میں غیر جانب دار رہنا چاہیے تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں شروع سے اس جنگ کے خلاف تھا، ہم 9/11 کے بعد امریکہ کی جنگ نہ لڑتے تو ہم دنیا کا خطرناک ملک نہ بنتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اتنے نقصانات کے باوجود آخر میں امریکا کی ناکامی پر ہمیں ہی قصور وار ٹھہرایا گیا اور امریکہ اپنی ناکامیوں کا الزام پاکستان پر عائد کرتا ہے۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ سوویت یونین کےخلاف جنگ کا فنڈ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے دیا تھا اور پاکستان نے مجاہدین کو تربیت دی تھی۔ جب امریکہ ایک عشرے بعد افغانستان گيا تو کہا گيا کہ یہ جہاد نہیں یہ دہشت گردی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ یہ بہت بڑا تضاد تھا جسے میں نے محسوس کیا۔ ان کے بقول امریکہ کا اتحادی بننے سے یہ گروہ ہمارے بھی خلاف ہو گئے اور پاکستان کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔
دوسری جانب افغانستان میں امن کے لیے طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ افغان امن مذاکرات جلد دوبارہ شروع ہونے چاہیئں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں تعطل مختصر وقت کے لیے ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان امن عمل کے لیے سہولت کاری کے فرائض انجام دیتا رہے گا۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے بھی امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے منسوخ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات جلد شروع ہوں۔
واضح رہے کہ پاکستان کو افغان مسئلے کے حل کے لیے اہم فریق سمجھا جاتا ہے اور طالبان امریکہ کے امن مذاکرات میں پاکستان نے اپنا کردار بھی ادا کیا ہے۔
افغان امن مذاکرات کی منسوخی پر سابق سفارت کار اور تجزیہ کار ڈاکٹر نذیر حسین کہتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کی ناکامی میں ٹرمپ انتظامیہ کا اپنا کردار ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ تعطل میں امریکی انتظامیہ کا اپنا کردار تھا، اسی وجہ سے امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کو گھر جانا پڑا۔ ان کے بقول پینٹاگون اور دیگر فیصلہ سازوں کے درمیان اتفاقِ رائے موجود نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ماضی میں شمالی کوریا اور ایران سے جو معاہدے کیے تھے وہ ان پر بھی پورا نہیں اتر سکے اور اب افغانستان میں امن کے لیے کوئی معاہدہ ہونے سے پہلے ہی یہ مذاکرات بھی ختم ہو گئے۔