پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے واضح کیا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو خط لکھنے سے پاکستان کے قومی مفادات کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ یہ ملک کے مفاد میں ہو گا۔
جمعے کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر خان کا کہنا تھا کہ الیکشن میں شفافیت کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور عوامی رائے کو تسلیم کیے بغیر ملک میں سیاسی و معاشی استحکام نہیں آ سکتا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ملکی معیشت کو بہتر بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی اور جب خط سامنے آئے گا تو سب کچھ واضح ہو جائے گا۔
پی ٹی آئی رہنماؤں نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان مبینہ دھاندلی اور ملکی صورتِ حال سے متعلق عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو خط لکھ رہے ہیں۔ تاہم یہ تصدیق نہیں ہو سکی کہ عمران خان یہ خط لکھ چکے ہیں یا نہیں۔
جمعرات کو اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر علی ظفر نے اعلان کیا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان آئی ایم ایف سے بذریعہ خط مطالبہ کریں گے کہ آئی ایم ایف پروگرام کو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے آڈٹ سے مشروط کیا جائے۔
'نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں'
دوسری جانب جمعے کو آئی ایم ایف میں کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ جولی کوزیک سے پریس بریفنگ کے دوران صحافی نے جب عمران خان کے ممکنہ خط سے متعلق سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں پاکستان میں جاری سیاسی پیش رفت پر تبصرہ نہیں کروں گی۔ میرے پاس اس حوالے سے کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘
آئی ایم ایف ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان کے تمام شہریوں کی خوشحالی یقینی بنانے اور ملکی معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔
واضح رہے کہ دسمبر میں آئی ایم ایف وفد سے ملاقات کرنے والے پی ٹی آئی کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے لیے تعاون کی یقین دہانی واضح طور پر صاف اور شفاف انتخابات سے مشروط تھی جو کہ اب دکھائی نہیں دیتے۔ لہذا وہ آئی ایم ایف پروگرام کے لیے اپنی حمایت واپس لے رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی حریف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے عمران خان کی جانب سے آئی ایم ایف کو خط لکھنے کے اعلان پر تنقید کی ہے اور اس اقدام کو ملکی مفادات کے منافی قرار دیا ہے۔
سابق وزیرِ خزانہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ عمران خان کا آئی ایم ایف کو خط لکھنے کا اعلان قابل مذمت ہے۔ یہ ذاتی مفادات کے لیے ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف ڈیل کے حوالے سے اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت ہو چکی ہے اور بانی پی ٹی آئی کے خط کا آئی ایم ایف کے پروگرام پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔
پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمان نے بھی اس اعلان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی دعوت دینا ملک دشمنی نہیں تو کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپنے دور میں ریکارڈ قرضہ لینے والوں کو اب یاد آیا ہے کہ قرضہ واپس کون کرے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ آئی ایم ایف کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں۔
امریکہ میں قائم ولسن سینٹر سے وابستہ تجزیہ کار مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ اس خط کی کوئی قدر نہیں ہو گی مگر یہ ایک فضول خیال ہے۔ ’پاکستان کو بُری طرح قرض کی ضرورت ہے۔ اگر اسے قرض نہ ملا تو معیشت کے لیے تباہ کن ہو گا۔‘
ماہر معاشیات قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا یہ دائرہ کار نہیں ہے کہ وہ مالی معاملات کے علاوہ کسی معاملے میں دخل دے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ اگر عالمی ادارے کو پاکستان پر سختی کرنا ہو گی تو وہ سابق وزیرِ اعظم کے اس خط کو جواز بنا سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی رہنماؤں کو اپنے اختلافات کو آپس تک ہی رکھنا چاہیے اور عالمی اداروں کو داخلی ملکی معاملات میں مداخلت کا جواز نہیں دینا چاہیے۔
قیصر بنگالی نے کہا کہ حال ہی میں عالمی بینک نے افریقہ کے ایک ملک کی مالی مدد اس بات کو جواز بنا پر روک دی تھی کہ اس ملک نے ایل جی بی ٹی کیو کے حقوق کے حوالے سے کوئی قانون سازی کی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف عمران خان کے خط کو کیسے لیتا ہے اس بارے وہ کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن اگر اس بنیاد پر کوئی اقدام لیا گیا تو یہ بدقسمتی ہو گی۔