پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے سری لنکا کا دو روزہ دورہ مکمل کر لیا ہے جس میں کئی معاہدوں کے علاوہ باہمی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ تجزیہ کار بھارت کے ساتھ پاکستان کی کشیدگی کے تناظر میں اس دورے کو اہم قرار دے رہے ہیں جب کہ یہ سوالات بھی جنم لے رہے ہیں کہ کیا سری لنکا بھارت کا کیمپ چھوڑ کر اب چین کی جانب جھک رہا ہے؟
گو کہ بھارت کی جانب سے عمران خان کے دورۂ سری لنکا پر کوئی ردِعمل نہیں آیا تاہم بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق نئی دہلی نے اس دورے اور اس دوران ہونے والے معاہدوں پر نظر رکھی۔
بھارتی میڈیا میں ایسی رپورٹس بھی آئی ہیں کہ سری لنکا کا جھکاؤ چین کی جانب ہو رہا ہے اور اس پر بھارت کو تشویش ہے۔
سری لنکا نے حال ہی میں بھارت اور جاپان کے ساتھ مل کر کولمبو پورٹ پر ٹرمینل بنانے کے 'ایسٹ کنٹینر ٹرمینل' منصوبے سے بھی یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کر لی ہے جسے بعض حلقے بھارت کے لیے ایک دھچکہ قرار دے رہے ہیں۔ اس منصوبے میں مبینہ طور پر بھارتی وزیرِ اعظم کے قریبی دوست کا کاروباری گروپ 'اڈانی گروپ' بھی شامل تھا۔
اس کے علاوہ سری لنکا نے 12 ارب ڈالرز کے ایک توانائی منصوبے پر چین کی ایک کمپنی سے معاہدہ کیا ہے۔ اس کے تحت تمل ناڈو کے ساحل سے 50 کلو میٹر دور جافنا میں مشترکہ طور پر تین قابلِ تجدید توانائی پاور پلانٹس لگائے جائیں گے۔
ایک بھارتی نیوز ویب سائٹ 'دی پرنٹ' کے مطابق بھارت نے اس معاملے پر سری لنکا کے ساتھ متعدد بار احتجاج کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ بھارت کی سیکیورٹی کے لیے شدید خطرہ ہے۔
ایک سابق سفارت کار اشوک سجن ہار کا کہنا ہے کہ عمران خان کے اس دورے سے بھارت سری لنکا رشتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ دونوں ممالک میں تاریخی اور تہذیبی و ثقافتی رشتے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت نے سری لنکا کو ویکسین کی پانچ لاکھ خوراکیں بطور تحفہ دی ہیں جب کہ سری لنکا نے سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کو ویکسین کی ایک کروڑ خوراکوں کا آرڈر دیا ہے۔
ان کے مطابق بھارت کے وزیرِ خارجہ جنوری میں سری لنکا کے دورے پر گئے تھے۔ اس سے قبل وزیرِ اعظم نریندر مودی بھی جا چکے ہیں۔ سری لنکا کے صدر گوتا بایا راجہ پاکسا نے صدر منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے بھارت کا دورہ کیا تھا وہاں کے وزیر اعظم بھی بھارت کا دورہ کر چکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے مطابق "سری لنکا نے بہت واضح انداز میں کہا ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں 'انڈیا فرسٹ' پالیسی پر عمل پیرا ہے اور وہ بھارت کی سلامتی کے حلاف کوئی کام نہیں کرے گا۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ عمران خان کے دورے سے بھارت سری لنکا رشتوں پر کوئی اثر پڑے گا۔"
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار اور 'بلوم بیسٹ نیوز' کے ایڈیٹر شہاب الدین یعقوب اشوک سجن ہار کی باتوں سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دو ملکوں کے سربراہوں کا باہمی دورہ ہوتا رہتا ہے۔ اسے پاکستان کی کوئی بڑی کامیابی نہیں سمجھنا چاہیے۔
عمران خان کے دورے سے قبل سری لنکا کے میڈیا میں ایسی خبریں آئی تھیں کہ وہاں کی حکومت نے سری لنکا کی پارلیمنٹ سے عمران خان کے مجوزہ خطاب کو منسوخ کر دیا۔ بھارتی میڈیا نے بھی اس خبر کو نشر کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سری لنکا کی حکومت کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں عمران خان اپنے خطاب میں کشمیر کا مسئلہ نہ چھیڑ دیں یا سری لنکا میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مبینہ سلوک کا معاملہ نہ اٹھا دیں۔
یاد رہے کہ سری لنکا میں کووڈ۔19 سے ہونے والی اموات کے بعد میت نذرِ آتش کر دی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی میتیں بھی نذرِ آتش کی جا رہی ہیں جس پر مسلمانوں میں اضطراب ہے۔
البتہ سری لنکا کی حکومت نے وضاحت کی ہے کہ کووڈ۔19 کی وجہ سے عمران خان کے خطاب کو منسوخ کرنا پڑا۔
لیکن اشوک سجن ہار کہتے ہیں کہ اگر عمران خان کشمیر کا مسئلہ اٹھاتے تو سری لنکا کی حکومت کو پریشانی لاحق ہو سکتی تھی۔ اس کو اندیشہ تھا کہ اگر ایسا ہوا تو بھارت اس کو پسند نہیں کرے گا۔
شہاب الدین یعقوب کے مطابق اس سے پتا چلتا ہے کہ سری لنکا کو بھارت کے جذبات کا کتنا خیال ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس دورے میں کوئی ایسی بات ہو جو بھارت سے اس کے رشتے کو متاثر کرنے کا سبب بن جائے۔
شہاب الدین یعقوب کا کہنا ہے کہ حالاںکہ اس صورت حال کو بیک چینل ڈپلو میسی سے ٹالا جا سکتا تھا۔ سری لنکا کی حکومت کہہ سکتی تھی کہ عمران خان خطاب کریں مگر وہ فلاں فلاں مسئلہ اٹھانے سے گریز کریں۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس دورے میں عمران خان نے وہاں کی تاجر برادری سے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی اپیل کی ہے۔ دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات بہت اچھے ہیں اور اگر سری لنکا کی تاجر برادری عمران خان کی اپیل پر عمل کرتی ہے تو یہ رشتے اور اچھے ہو جائیں گے۔
اڈانی گروپ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی منسوخی کا جہاں تک معاملہ ہے تو اشوک سجن ہار کے مطابق سری لنکا کی کابینہ، وہاں کی سیاسی جماعتوں سمیت مختلف طبقات نے اس معاہدے کی مخالفت کی تھی جس کی وجہ سے وہاں کی حکومت نے 'ایسٹ کنٹینر ٹرمینل' منصوبے کے بجائے 'ویسٹ کنٹینر ٹرمینل' منصوبے کی پیش کش کی ہے۔
شہاب الدین کا بھی یہی کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ معاہدے کی بعض شقوں پر اختلاف رہا ہو اس لیے اسے منسوخ کر دیا گیا۔
اشوک سجن ہار کہتے ہیں کہ ایک چینی کمپنی کے ساتھ 12 بلین ڈالر کے منصوبے پر سمجھوتے سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ سری لنکا چین کی جانب جھک رہا ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ سری لنکا کو انفرا اسٹرکچر کے لیے دوسرے ملکوں سے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
ان کے خیال میں سری لنکا کو اپنے سابقہ تجربے سے سبق لینا چاہیے۔ چین نے اسٹریٹجک اہمیت کی حامل بندر گاہ ہمن ٹوٹا کو 99 سال کے لیے لیز پر لے لیا ہے۔ اس نے مزید علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ لہٰذا سری لنکا کو اپنے اقتدار اعلیٰ اور اپنی اقتصادی آزادی کے تحفظ پر غور کرنا پڑے گا۔
شہاب الدین کہتے ہیں کہ چین کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے ملکوں کو اپنے دائرہ اثر میں لے لے۔ ان کے مطابق سری لنکا میں چین کے بڑھتے اثرات پر وہاں کے عوام نے بارہا احتجاج کیا ہے۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان بہت اچھے تجارتی رشتے ہیں۔ اس تجارتی رشتے کا توازن پاکستان کی طرف جھکا ہوا ہے۔
شہاب الدین یعقوب کے مطابق دونوں ملکوں میں آزاد تجارتی معاہدہ ہے۔ جس سے دونوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن بھارت سے بھی اس کے اچھے تجارتی رشتے ہیں۔ بلکہ بھارت اس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان فوجی نوعیت کے رشتے بہت مضبوط ہیں۔ تامل باغیوں کے عروج کے زمانے میں پاکستان نے سری لنکا کو ہتھیار سپلائی کر کے مدد کی تھی۔
شہاب الدین یعقوب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ماضی کی باتیں ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جنیوا میں جلد ہی منعقد ہونے والے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں اس قرارداد پر سماعت ہونے والی ہے جس میں سری لنکا پر 2009 میں تامل باغیوں کے ساتھ لڑائی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا ہے اور اس کے خلاف پابندی لگانے کی بات کی گئی ہے۔
سری لنکا چاہتا ہے کہ بھارت یا تو اس کے حق میں ووٹ دے یا پھر ووٹنگ سے غیر حاضر رہے۔ اسی لیے وہ کسی ایسی بات کے حق میں نہیں ہے جو بھارت سے اس کے رشتوں کو اثرانداز کرے۔
گزشتہ دنوں بھارت کی مشرقی ریاست تری پورہ کے وزیر اعلیٰ بِپلب دیب نے کہا تھا کہ امت شاہ نیپال اور سری لنکا میں بھی بی جے پی کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر نیپال نے اعتراض کیا ہے لیکن سری لنکا کی حکومت کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان نہیں آیا۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اس بیان پر سری لنکا میں درپردہ ناراضگی ظاہر کی گئی ہے۔
وہاں کے الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ اس کے قوانین کسی دوسرے ملک کی سیاسی جماعت کو وہاں سرگرمیاں چلانے کی اجازت نہیں دیتے۔
'دی پرنٹ' سے وابستہ صحافی جیوتی ملہوترہ کا کہنا ہے کہ بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کو اس معاملے کو نیپال اور سری لنکا دونوں کے ساتھ خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرنا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ جب امت شاہ نے آسام میں اپنی تقریروں میں بنگلہ دیش کے مبینہ دراندازوں کو 'دیمک' قرار دیا تھا اور انہیں ختم کرنے کی بات کہی تھی تو بنگلہ دیش میں اس پر شدید ردِ عمل ہوا تھا اور بھارت کے ساتھ اس کے رشتے متاثر ہوئے تھے۔ بالآخر وزیر اعظم کو خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شرنگلا کو ڈھاکہ بھیج کر اس معاملے کو ٹھنڈا کرنا پڑا تھا۔ لہٰذا بھارتی حکومت، بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ نہیں چاہتے کہ امت شاہ کے بیان پر سری لنکا میں بھی ردِ عمل ظاہر کیا جائے۔
وہ کہتی ہیں کہ ایس جے شنکر سری لنکا کو 1988 سے جانتے ہیں جب وہ ایک نوجوان سفارت کار کی حیثیت سے وہاں تعینات کیے گئے تھے۔ وہ 2019 کے بعد سے اب تک دو بار سری لنکا کا دورہ کر چکے ہیں۔ ان کے سامنے دیگر چیلنجز کے علاوہ سری لنکا کے چین کی جانب جھکاؤ کو روکنے کا بھی ایک چیلنج ہے۔