رسائی کے لنکس

پاکستان افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے میں توسیع، تاجر برادری کا خیر مقدم


فائل فوٹو
فائل فوٹو

تجارتی برادری کے نمائندوں نے پاکستان کے افغانستان کے ساتھ راہداری تجارت کے معاہدے میں تین ماہ کی عارضی توسیع کے اقدام کا خیر مقدم کیا ہے اور نیا معاہدہ جلد از جلد کرنے پر زور دیا ہے۔

پاکستان کے وزیرِ اطلاعات شبلی فراز نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے منگل کو اجلاس کے دوران 2010 میں طے پانے والے افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے میں تین ماہ کی توسیع کی منظوری دی ہے۔ اس معاہدے کی مدت 11 فروری کو ختم ہو رہی تھی۔

اس معاہدے کے تحت افغانستان بین الاقوامی تجارت کے لیے پاکستان کی بندرگاہیں اور زمینی راستے استعمال کر سکتا ہے۔ اسی معاہدے کے تحت افغانستان اپنا تجارتی سامان بھارت کو برآمد کر سکتا ہے۔ جب کہ پاکستان کے لیے وسط ایشیائی ممالک تک راہداری تجارت کی سہولت موجود ہے۔

معاہدے کے تجدید کے لیے دونوں ممالک میں گفتگو کے کئی ادوار ہو چکے ہیں لیکن اب تک کئی امور حل طلب ہیں۔

امریکہ کی کوششوں اور تعاون سے پاکستان اور افغانستان نے 1965 میں طے پانے والے معاہدے کی جگہ 2010 میں راہدار ی تجارت کا نیا معاہدہ کیا تھا۔ لیکن اب اس معاہدے پر نظرِ ثانی کے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں۔

پاکستان افغانستان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے صدر اور پاکستان کی کاروباری برداری کے نمائندے زبیر موتی والا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد اور کابل میں نیا تجارتی راہداری معاہدے طے نہ ہونے پر دونوں ممالک کی تجارتی برادری کو تشویش ضرور ہے۔ لیکن یہ خوش آئند ہے کہ پاکستان نے راہداری تجارت کے معاہدے میں تین ماہ کی توسیع کر دی ہے تاکہ بین الاقوامی تجارت کی سرگرمیاں جاری رہیں۔

گوادر بندرگاہ کے راستے افغان تجارت
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:08 0:00

زبیر موتی والا کے بقول پاکستان اورافغانستان کے درمیان تجارتی راہداری کے معاہدے کے لیے دونوں ممالک کے حکام کے کئی اجلاس ہو چکے ہیں۔ لیکن اب بھی بعض امور پر اختلافات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی حکومت خواہاں ہے کہ واہگہ بارڈر کے راستے بھارت کے ساتھ دو طرفہ تجارت کی اجازت دی جائے اور افغانستان سے تجارتی سامان لے جانے والے ٹرکوں کو بھارت میں داخل ہونے کی اجازت مل سکے۔ لیکن موجودہ معاہدے کے تحت افغان تجارتی سامان سے لدے ٹرک صرف واہگہ تک جا سکتے ہیں اور سامان اتارنے کے بعد انہیں خالی واپس لوٹنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مؤقف ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان موجود تجارتی راہداری کا معاہدے دو طرفہ ہے اور اس معاہدے کے تحت پاکستان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے تناؤ کے شکار تعلقات کے پیش نطر واہگہ کے راستے افغانستان کو دو طرفہ تجارت کی سہولت فراہم کر سکے۔

زبیر موتی والا کہتے ہیں کہ پاکستان وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ افغانستان کے راستے آزادانہ تجارت کا خواہاں ہے۔ لیکن اس حوالے سے بھی مؤثر معاہدہ طے ہونا باقی ہے۔

پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان افغانستان کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی خواہاں ہے اور پاکستان افغانستان کو دوسری منڈیوں تک رسائی دینے کے ساتھ ساتھ وسط ایشیائی ممالک تک رسائی چاہتا ہے۔

پاکستان کی کاروباری برادری کے نمائندے زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ پاکستان نئے راہداری معاہدہ طے کر کے وسط ایشیائی ریاستوں تک تجارت کے لیے بغیر کسی رکاوٹ کے رسائی چاہتا ہے۔ دوسری طرف افغانستان مال بردار ٹرکوں کو واہگہ کے راستے بھارت میں داخل ہونے کی جازت چاہتا ہے۔ ان دو معاملات سمیت سیاسی وجوہات کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان نئے معاہدے میں تاخیر ہو رہی ہے۔

دوسری جانب 'پاکستان افغانستان چیمبر آف کامرس' کے کابل دفتر کے سیکریٹری جنرل نقیب اللہ صافی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ​ گزشتہ برسوں میں بعض تکنیکی مسائل کی وجہ سے پاکستان کے راستے ہونے والی افغان تجارت کے حجم میں لگ بھگ 50 فی صد کمی آ چکی ہیں۔

'افغان ٹریڈ معاہدے پر تحفظات ہیں، اسمگلنگ روکنا ہو گی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:09 0:00

نقیب اللہ صافی ​کا کہنا ہے کہ افغان تجارتی برادری کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ کراچی بندرگاہ پر افغانستان کے تجارتی سامان کے کنٹینرز کی انسپیکشن کا عمل سست ہوتا ہے جس کی وجہ سے تاجروں کو اضافی اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔

ان کے بقول افغان کاروباری برادری نے یہ تجویز دی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے پانے والے نئے تجارتی راہداری کے معاہدے میں اس معاملے کو حل کر لیا جائے تو پاکستان کے راستے افغانستان کی تجارت کے حجم میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ ہر برس لگ بھگ 75 ہزار کنٹینرز سامان لے کر کراچی سے افغانستان جاتے ہیں اور مناسب اقدامات سے اس تعداد کو 90 ہزار تک بڑھایا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG