غزہ میں ایک ٹوٹے پھوٹے احاطے میں مختلف عمر کے بچے چاک اور سلیٹ لیے بیٹھے ہیں اور مشتاق نظروں سے اپنے ٹیچر کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسے شہر کے لیے اجنبی سا منظر ہے جہاں ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں، ایک نامعلوم تعداد ملبے میں دفن ہے اور شہر نے ایک کھنڈر کی صورت اختیار کرلی ہے۔
25 سال کے ٹیچرطارق النبی اپنے شاگردوں کی کرسیوں کو ایک دائرے میں ترتیب دیتے ہیں، سلیٹ اور چاک جگہ پر رکھتے ہیں، اور اس دن کے لیے اپنے سبق کی تیاری کرتے ہیں، جو وطن سے محبت کے بارے میں ہے۔اور وہ بچوں کو سکھانا چاہتے ہیں کہ اسے کیسے انگریزی میں کہا جائے۔
غزہ کے بچے
تقریباً دو ماہ قبل، جب حماس کے جنگجو غزہ کی پٹی سے اسرائیل میں داخل ہوئے، ملکی تاریخ کے بدترین حملے میں تقریباً 240 افراد کو یرغمال بنایا اور 1200 افراد کو ہلاک کر دیا، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔اس کے اگلے دن اتوارکے بعد، علاقے کے بہت سے سکول یا تو اسرائیل کی جوابی بمباری کی مہم سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے پناہ گاہیں بن چکے ہیں یا بالکل ویران ہو چکے ہیں۔
انگلش ٹیچر 25 سالہ طارق النبی لڑائی کے عروج کے دوران غزہ شہر میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام اپنا اسکول چھوڑنے پر اس وقت مجبور ہوگئے، جب اسرائیلی ٹینکوں نےاس کا محاصرہ کر لیا تھا۔
لیکن ہفتوں کی لڑائی اور حماس کے خلاف اسرائیلی فضائی اور زمینی مہم کے بعد جس میں حماس کے زیرانتظام غزہ کی حکومت کے مطابق، 15,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، ، طارق النبی غزہ کی پٹی کے جنوب میں رفح میں بے گھر بچوں کو پڑھانے کے لیے واپس آ گئے ہیں۔
ان کا کلاس روم ایک مقامی اسکول کے صحن میں ہے جسے ایک عارضی کیمپ بنایا گیا ہے۔ عمارت کے اصل کلاس رومز اب ان خاندانوں کے گھر ہیں جو میزوں کے نیچے گدوں پر سوتے ہیں۔ دوسرے برامدوں میں سوتے ہیں جہاں انہیں کم از کم رات کی سردی سے کچھ پناہ ملتی ہے۔
طارق ہر عمر کے تقریباً 40 لڑکوں اور لڑکیوں کی اپنی کلاس کو ، سلیٹ اور چاک کا استعمال کرتے ہوئے پڑھاتے ہیں جو انہوں نے ادھر ادھر سے اکٹھے کیے گئے چھوٹےموٹےعطیات سے حاصل کی ہیں۔
جینز اور سرمئی رنگ کا سویٹر پہنے ہوئے صاف ستھرے طارق اپنے شاگردوں کی کوششوں پر نظر رکھتے ہیں جب وہ عربی اور انگریزی دونوں میں لکھنا سیکھ رہے ہیں۔
دس برس کی لیان, گلابی تتلیوں سے سجا سرمئی رنگ کا کوٹ پہنے ہوئے، اپنے کام پر پوری توجہ دیتی ہیں، لیکن ایک لمحے کے لیے رک کر یہ بتاتی ہے کہ کس طرح ان کے گھر پر بمباری نے خاندان کو غزہ شہر چھوڑنے پر مجبور کیا۔
"اب ہم اس اسکول میں سوتے ہیں۔ چچا طارق ہمیں انگریزی پڑھاتے ہیں،" وہ خوش دلی سے کہتی ہیں کہ جب وہ بڑی ہوں گی تو وہ بھی انگلش ٹیچر بننا چاہیں گی۔
بچوں کو ایک آواز دیناتاکہ دنیا انہیں سنے
طارق کے لیے، جنگ کے وقت انگریزی پڑھانا بذات خود ایک طرح کی حکم عدولی ہے ہے۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ پہلے "ہم بچوں کو ان کی مسکراہٹ واپس دیتے ہیں اور پھر انہیں اپنے اسباق دوبارہ سیکھنے دیتے ہیں"۔
نوجوان ٹیچر نے کہا کہ "ہم انگریزی بولنے میں ان کی مدد کرتے ہیں، تاکہ انہیں دنیا میں سنا جا سکے۔"
فی الحال وہ اکیلے ہی پڑھارہے ہیں، صبح کے وقت 40 طالب علموں کو اور مزید 40 کو دوپہر میں، لیکن انہیں امید ہے کہ دوسرے رضاکاربھی سامنے آئیں گے
غزہ میں اسکولوں کی صورتحال کیا ہے؟
اقوام متحدہ کے مطابق، غزہ کی پٹی میں، جوغربت سے تباہ حال ایک چھوٹاسا گنجان آباد علاقہ ہے- 81.5 فیصد لوگ غریب اور 46.6 فیصد بے روزگار ہیں۔
تقریباً نصف آبادی کی عمر 15 سال سے کم ہے۔ لیکن بار بار ہونے والے تنازعات کے بعد جس نے بہت سے اسکولوں کو تباہ کر دیا ہے، اور 17 سال کی اسرائیلی ناکہ بندی کے بعد جو خاص طور پر تعمیراتی ساز و سامان پر ہے- بچےتعلیم سے محروم ہو رہے ہیں۔
امن کے زمانے میں بھی، اقوام متحدہ، جو وہاں 180 سے زیادہ اسکولوں کا انتظام چلاتی ہے، پیچیدہ ٹائم ٹیبل کا سہارا لینے پر مجبور تھی۔
کچھ جگہوں پر، دستیاب وقت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور ہر ایک میں بچوں کے مختلف گروپوں کو تعلیم دی جاتی ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دن میں کم از کم چند گھنٹے پڑھنے کا موقع دیا جا سکے۔
حماس کی حکومت کے مطابق، موجودہ جنگ کے نتیجے میں 266 اسکولوں کو جزوی طور پر نقصان پہنچاہے، جب کہ 67مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔