ماحولیاتی تبدیلی پر اقوامِ متحدہ کا اجلاس کوپ 28 دبئی میں شروع ہوگیا ہے جس میں شرکت کے لیے پاکستان کے نگراں وزیرِاعظم انوارالحق کاکڑ اپنے سرکاری دورے پر مشرق وسطیٰ میں ہیں۔
جمعرات سے شروع ہونے والی یہ عالمی موسمیاتی کانفرنس میں پاکستان سمیت دنیا کے 197 عالمی رہنماؤں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے سفارشات اور تجاویز پر غور کریں گے۔
اس کانفرنس کے دوران موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اہم ملاقاتیں بھی طے ہیں جس کے ساتھ ہی اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ کانفرنس میں عالمی درجۂ حرارت کو بڑھنے سے روکنے کے بارے میں فیصلے ہو سکیں گے۔
کوپ 28 کے دوران کوپ فورم کو سب کے لیے قابل قبول بنانے کے ساتھ 'پیرس معاہدے'کے اہداف کے حصول کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔اس کے علاوہ کوپ 28 میں متبادل توانائی کے ذرائع کے استعمال سے 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے اہداف مقرر کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ کوپ28 عالمی موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کا اجلاس ہے جو رواں سال دبئی میں منعقد ہو رہا ہے اور 197 ممالک کے سربراہان بشمول پوپ اور شاہ چارلس سوم اس میں شرکت کریں گے۔
پاکستان کوپ 28 میں مسلسل اور توسیع شدہ عالمی تعاون حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر پاکستان کو امید ہےکہ وہ ماحولیات کی عالمی کانفرنس میں درپیش مشکلات اور پریشانیوں کو پیش کرے گا اور ترقی یافتہ ممالک مسئلے سے نمٹنے میں اس کی مدد کریں گے۔
نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی ماحولیاتی تنظیم کے ڈائریکٹر جمیل احمد کہتے ہیں کہ کوپ 28 کانفرنس، ماحولیاتی تبدیلی کنونشن کا تسلسل ہے اور اس کی اہمیت اس وجہ سے بڑھ گئی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی خطرے کی گھنٹی کے بجائے خطرہ بن چکی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2015 کی پیرس ماحولیاتی کانفرنس میں یہ طے پایا تھا کہ سات سال کے بعد پیرس معاہدے پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے گا اور یہ اندازہ لگایا جائے گا کہ تعین کردہ اہداف پر کتنا عمل درآمد ہوا اور کہاں پر ناکامی رہی۔
سال 2015 میں پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں 2050 تک دنیا کے درجۂ حرارت میں اضافے کو دو ڈگری تک محدود کرنے کا معاہدہ ہوا تھا۔اس معاہدے کو تمام ممالک کی طرف سے کاربن کے اخراج میں کمی کا پہلا عالمی معاہدہ بھی کہا جاتا ہے۔
جمیل احمد نے کہا کہ کوپ 28 کے اس اجلاس میں نہ صرف ناکامیوں کا تعین کیا جائے گا بلکہ اس کی وجوہات کو جانتے ہوئے آئندہ برسوں کے لیے لائحہ عمل بھی طے کیا جائے گا۔
اقوامِ متحدہ کی ماحولیاتی تنظیم کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ کوپ 28 سربراہی اجلاس میں ممالک کے سربراہان ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی اپنی ترجیحات بیان کریں گے اور اس میں پاکستان بھی اپنا مقدمہ پیش کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پالیسیوں کو منظم انداز میں نافذ کرنا ہوگا تاکہ عالمی تنظیمیں اور ممالک اسلام آباد کی بات سنیں اور مدد کے لیے آگےآئیں۔
جمیل احمد کہتے ہیں کہ اس کانفرنس میں کسی ایک ملک سے متعلق فیصلہ سازی نہیں ہوگی بلکہ ایک نئے روڈ میپ کا تعین کیا جائے گا جس پر سب ممالک مل کر کام کرسکیں۔
ماہر ماحولیات علی توقیر شیخ کہتے ہیں کہ کوپ28 میں پاکستان کو موقع ملے گا کہ وہ ماحولیات کے حوالے سے اپنا مقدمہ عالمی رہنماؤں کے سامنے بیان کرسکےاور اس سے نمٹنے کے اپنے اقدامات کا اعلان کرسکے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی نقصان کے بدلے معاوضے کی بات کریں گے کیوں کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ فنڈز کے حصول کی بات تو کی جاسکتی ہے لیکن اس کانفرنس میں پاکستان کو اضافی فنڈز نہیں مل سکتے۔ ان کے بقول ماحولیاتی نقصان کے بدلے فنڈز کے حصول پر پاکستان کو زیادہ پرامید نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ فنڈ کی تقسیم کے قواعد ابھی نہیں بن سکے ہیں۔
واضح رہے کہ ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن (کوپ 28) کے آئندہ اجلاس میں پاکستان ماحولیاتی انصاف کا مطالبہ کرے گا اور ماحولیاتی اخراجات کی مد میں100 ارب ڈالر سالانہ فراہم کرنے کے وعدے پورے کرنے کا کہے گا۔
علی توقیر شیخ کہتے ہیں کہ عالمی ادارے اور ممالک یہ نہیں دیکھتے کہ آپ کتنے متاثر ہیں بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ ماحولیات کی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیےکیا اقدامات کر رہے ہیں اور اس میں وہ کیا مدد کرسکتے ہیں۔
ان کے بقول پاکستان نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ابھی تک ایسے جارحانہ اقدامات نہیں کیے جو عالمی اداروں اور ترقی یافتہ ممالک کو اپنی جانب راغب کرسکیں کہ وہ فنڈز مہیا کریں۔
خیال رہے کہ گذشتہ سال مصر میں ماحولیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے اجلاس کوپ 27 میں ایک تاریخی معاہدے کے تحت غریب اور ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی نقصان کے بدلے معاوضہ دینے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی نقصان کے بدلے معاوضہ دینے کے بارے میں بات کرتے ہوئے جمیل احمد نے کہا کہ اس فنڈ کے قیام میں پاکستان نے بہت کردار ادا کیا تھا۔ تاہم ابھی تک فنڈ کے استعمال اور تقسیم کار کے قواعد کا تعین نہیں ہوسکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترقی پزیر ممالک کو چاہیے کہ وہ ترقیاتی منصوبوں کو ماحولیاتی تبدیلی سے موافق بنائیں اور درختوں، پانی جیسے قدرتی وسائل کو خراب نہ کریں جو کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے میں مددگار ہوں گے۔
جمیل احمد کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی سے نہ صرف انسانی، حیاتیات بلکہ زمین بھی اثرات کا سامنا کررہی ہے۔موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشیں اور سیلاب آرہے ہیں اور گرمی کی لہروں سے حیاتیات کو سب سے زیادہ خطرہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کی موسمیاتی تبدیلی نے ہوا کو بھی بہت متاثر کیا ہے جس کے سبب انسان سانس، جلد اور آنکھوں کی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔
پاکستان کی حکومت نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے چھ نکات پر مشتمل نیشنل ایڈاپٹیشن پلان تیار کرلیا ہے جسے نگراں وزیر اعظم کوپ 28 کانفرنس میں پیش کریں گے۔
وزارتِ منصوبہ بندی کے مطابق واٹر ریسورسز مینجمنٹ، زرعی و فوڈ سیکیورٹی، جنگلات، انفرااسٹرکچر ماحولیات پلان کا اہم حصہ ہوں گے۔اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے پلان میں پبلک ہیلتھ پروگرامز بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کا گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں حصہ صرف ایک فی صد ہے۔ لیکن پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملکوں میں شامل ہے۔
عالمی بینک کے مطابق پاکستان کو شدید موسمیاتی تبدیلیوں جیسے سنگین چیلنجز درپیش ہیں اور بلوچستان میں حالیہ شدید سیلاب سے موسمی خطرات مزید بڑھ گئے ہیں۔
فورم